مزید خبریں

امین اسٹیل ، صحت و سلامتی کے قانون پرعمل کیا جائے

گزشتہ ہفتہ ملک بھر میں ایک درد ناک صنعتی حادثہ کی ویڈیو فلم سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس کو دیکھ کر انسانوں پر سکتہ کا عالم طاری ہوجائے اور ان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ ویڈیو فلم میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دوران کاربکٹ سے پگھلا ہوا لوہا فرش سے پھیلتا ہوا پوری فیکٹری میں گردش کررہا ہے جس سے متعدد مزدور جھلس گئے جبکہ دوسری ویڈیو فلم میں امین اسٹیل ملز کے گیٹ کے باہر دو معصوم و مظلوم مزدور بے حسی و لاچارگی کی تصویر بنے ہوئے اپنے جھلسے ہوئے جسم کے ساتھ کسی مدد و طبی امداد کے منتظر نظر آرہے ہیں۔ ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں۔ اس موقع پر کوئی فیکٹری انتظامیہ کا فرد ان کی مدد کے لیے نظر نہیں آرہا ہے۔ کیا دور دراز علاقہ بن قاسم میں نیشنل ہائی وے سے کئی میل اندر قائم اس فیکٹری میں فائٹر فائٹنگ، فرسٹ ایڈ اور کسی ایمبولینس کا انتظام نہیں تھا۔ کیا سندھ فیکٹری ایکٹ کے تحت یہ رجسٹرڈ تھی۔ کیا ایکٹ کے سیکشن (4) 53 کے تحت ہزار ڈ آپریشن ایریا ظاہر کیا گیا تھا جس کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کی سلامتی و تحفظ کے لیے اور ریگولر میڈیکل چیک اپ کے انتظام کیے گئے تھے؟ حسب حال ظاہر ہے یہ سب کچھ نہیں ہوگا کیونکہ لفافہ کلچر انسانی جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔ کراچی میں یہ کوئی پہلا المناک صنعتی حادثہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ ماہ تین دن تک چیز ڈیپارٹمنٹل اسٹور (جیل چورنگی) پر آگ سلگتی رہی، کورنگی صنعتی علاقہ میں گزشتہ سال فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے میں 15 مزدور لقمہ اجل بن گئے۔ باوجود اس کے صنعت کار و سرکاری اہلکاروں کی جانب سے پیشہ ورانہ صحت و سلامتی کے ضمن میں انسانی ہمدردی کے نمایاں جذبات کا اظہار اور نہ ہی کوئی بہتری کے آثار نظر آتے ہیں جبکہ سندھ میں ایک وسیع البنیاد بہت واضع اور جامع قانون سازی OSHAT 2017 Sindh کردی گئی ہے لیکن خصوصاً صنعتی و تجارتی شعبہ کی انتظامیہ مذکورہ قانون کو ذرہ برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب پیشہ ورانہ سلامتی و صحت (OSH) کے لیے محکمہ محنت نے دو یونٹ کراچی اور ایک یونٹ حیدر آباد میں قائم تو کردیا ہے۔ نیز قانون کے تحت Sindh OSH Council بھی غیر متعلقہ افراد پر مشتمل قائم کردی گئی ہے جس کی گزشتہ 2 سال سے کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ پیشہ ورانہ سلامتی و صحت کے مذکورہ قانون پر عملدرآمد و اطلاق کا تعلق ہے تو اس جامع واضع قانون کو سجا کر الماری کی زینت بنادیا گیا ہے۔ صرف الزام تراشی تو بہت آسان کام ہے لیکن نیک نیتی کے ساتھ حقائق کا جائزہ لینا بے حد لازم ہے کہ سندھ میں جو تین OSH Unit بنائے گئے ہیں اس میں صرف 12 کوالیفائیڈ افسران کا تقرر کیا گیا ہے جبکہ قلیل تعداد میں ان کو سپورٹنگ دفتری عملہ دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کے وسائل کام کرنے کے لیے بہت محدود ہیں۔ قانون پر اطلاق، انسپکشن و چیکنگ کے لیے ٹرانسپورٹ بھی محدود تعداد میںفراہم کی گئی ہے، صرف کراچی کے صنعتی زون (بشمول 4 لیبر ڈویژن) جو کیماڑی و سائٹ سے سپر ہائی وے اور گھگر پھاٹک نیشنل ہائی وے تک پھیلا ہوا ہے اس کے لیے متعلقہ عملہ کو دور دراز علاقوں تک رسائی کے لیے موثر ٹرانسپورٹ و دیگر افرادی قوت بھی انتہائی ضروری ہے۔ جس المناک حادثہ کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق جب OSH یونٹ کا عملہ جائے حادثہ پر گیا تو فیکٹری انتظامیہ کا کوئی ذمہ دار وہاں موجود نہ تھا جو فیکٹری رجسٹریشن اور پیشہ ورانہ سلامتی سے
متعلق کوئی معلومات فراہم کرتا بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ فیکٹری مالکان علاقہ پولیس سے مک مکا کرکے فیکٹری کو تالا لگا کر اس وقت فرار ہوگئے اور مزدوروں کو ڈرا دھمکا کر زبان بندی کردی گئی ہے۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ حسب سابق اس دردناک صنعتی حادثہ کے اسباب وجوہات کی تحقیق کرنے کے بجائے ’’مٹی پائو‘‘ معاملہ ہوگا۔ لیکن اس تمام صورت حال میں ہمارا اپنا ٹریڈ یونین تحریک کا کیا کردار ہے؟ وہی پبلسٹی اور روایتی تقریر کیا ہم اتنے موثر جامع واضح قانون پر اطلاق و عمل درآمد کے لیے کوئی واضع حکمت عملی ترتیب دیں گے یا پھر سرکاری کمیٹیوں میں صرف نمائندگی ہی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے ہماری کورنگی میں واقع فیکٹری کی CBA یونین نے انتظامیہ کو خط لکھا چوں کہ وہاں پر لوہا بذریعہ بھٹی پگھلا کر پارٹس بنائے جاتے ہیں لیکن مذکورہ فیکٹری کی انتظامیہ نے اس خط کو جوتے کی نوک پر رکھ کرکے ہوا میں اڑا دیا۔ اس تناظر میں صنعتی انتظامیہ کی بے حسی اور غیر قانونی رویہ کا جائزہ لیا بھی وزیر محنت، سیکرٹری لیبر سندھ کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔

پ