مزید خبریں

ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو سرمایہ آئے گا،مزدوروں کو روزگار ملے گا

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو سرمایہ آئے گا‘ مزدوروں کو روزگار ملے گا‘ مہنگائی اور قرضوںمیں کمی اور معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو جمہوری سوچ اپنانا اورد ھوکا دہی و نفرت پر مبنی سیاست سے گریز کرنا ہوگا‘ محنت کشوں کے بجائے اراکین اسمبلی کو سستا کھانا، فری پیٹرول و دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان،ایپوا کے جنرل سیکرٹری سید علمدار رضا، متحدہ لیبر فیڈریشن لاہور سے ملحقہ ویمن ورکرز یونین کی سینئر رکن شاہینہ کوثر، پاکستان اسٹیل لیبر یونین پاسلو کے بانی صدر عبدالحکیم فاروقی، انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل لمیٹڈ لیبر یونین سی بی اے کے جنرل سیکرٹری کراچی اور آرگنائزنگ سیکرٹری این ایل ایف کراچی رضوان علی اور مہران لیبر فیڈریشن کے سینئر نائب صدر اشتیاق احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیاکہ ’’ملک میں سیاسی استحکام سے مزدوروں کو کیا فائدہ ہے؟‘‘ ظفر خان نے کہا کہ سیاسی استحکام سے معاشی ترقی ہوتی ہے یہ ملک، قوم اور مزدوروں کی فلاح بہتری کے لیے بے انتہا ضروری ہے‘ سیاسی و معاشی عدم استحکام کا اثر تو ہر طبقے پر پڑتا ہے مگر اس کا سب سے زیادہ اثر محنت کش طبقے پر پڑتا ہے‘ مزدوروں کا اپنے بچوں کو تعلیم، علاج اور دیگر سہولیات دینا دور کی بات ہے وہ تو 2 وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں‘ مہنگائی میں بے پناہ اضافے کے باوجود محنت کش کی کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے طے کی گئی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور اس کے ساتھ سارا بوجھ بھی مراعات یافتہ طبقے کے بجائے غریب مزدور کی گردن پر آجاتا ہے‘ سستی روٹی اور کھانا محنت کش طبقے کو میسر آنا چاہیے مگر ملک میں سستی روٹی اور کھانا ارکان اسمبلی کو دیا جاتا ہے‘ ساتھ ہی فری پیٹرول، فری رہائش، فری ہوائی ٹکٹ اور دیگر سہولیات اس کے علاوہ ہیں‘ اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔ علمدار رضا نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی ذاتی سوچ اور حکمت عملی سے پیدا ہوتا ہے‘ ان کی ضمیر فروشیکو نیم پاگل بھی کہا جا سکتا ہے‘ باشعور طبقہ پریشانی کے عالم میں سرگرداں و پریشان رہتا ہے‘ فیصلے کی صلاحیت دم توڑتی جا رہی ہے‘ چاروں طرف خوف کی کیفیت ہے‘ عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے قانون بنانا اور تبدیل کرنا مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ قاسم جمال نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے‘ اس کی وجہ سے ناصرف ملک ترقی کرتا ہے بلکہ اس سے معاشی صورتحال میں بھی بہتری آتی ہے جس سیمہنگائی اور غریت کا خاتمہ اور ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ شاہینہ کوثر نے کہا کہ عمران خان کی سابق حکومت اور شہباز شریف کی موجودہ حکومت دونوں محنت کشوں کی دوست نہیں‘ حکومتوں میں رہنے والی بڑی سیاسی پارٹیوں کے منشور میں مزدور کے لیے کچھ نہیں اور اگر کہیں ہے بھی تو وہ دکھانے کے لیے ہے‘ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو حکومت میں لائی اور جب ان کا مفاد ختم ہوگیا تو موجودہ حکومت کو لے آئی‘ سیاسی استحکام سے ہی ملک ترقی کرے گا اور مزدور خوش حال ہوں گے۔ عبدالحکیم فاروقی نے کہا کہ ترقی، خوشحالی اور امن سکون کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے‘ تب ہی ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری اور سیاحت ہو گی‘ کارخانے لگیں گے‘ روزگار بڑھے گا‘ غربت دور ہوگی‘ مزدور خوشحال ہوگا‘ ملک مستحکم اور مضبوط ہوگا‘ ملکی قرض اتارنے میں مدد ملے گی‘ روپیہ مضبوط ہوگا‘ سکون سے معدنیات کی تلاش ہوسکے گی‘ ملک میں سیاسی استحکام لانے میں جرنیل اور ججوں کا کردار بہت اہم ہے یہ دونوں سیاسی حکومتوں کی مدد کریں اور ملک میں انتشار پیدا کرنے والے بیانات، تحریکوں، دھرنوں اور آئے دن سڑکوں کی بندش کو روکیں‘ جمہوری عمل کو شائستگی اور تحمل سے آگے بڑھایا جائے‘ سیاسی جماعتوں کو جمہوری سوچ پیدا کرنی ہوگی‘ نفرت ،گالم گلوچ، دھوکا دہی، جھوٹ و فریب کو ختم کرنا ہوگا‘ خود پسندیدگی اپنے علاوہ سب کو کرپٹ سمجھنے کی روش سے جان چھڑانی ہوگی‘ دینی و سیاسی جماعتوں کو آپس میں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ رضوان علی نے کہا کہ ملک میں جاری موجودہ سیاسی عدم استحکام نے جہاں عوام میں انتشار اور خوف کی فضا قائم کر رکھی ہے‘ وہیں دوسری طرف سرمایہ دار اور صنعت کار بھی اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں لیکن اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ملک کا مزدور ہے جس کی مثال حالیہ کچھ دنوں میں دیکھنے میں آئی ہے جب کورنگی، لانڈھی صنعتی ایریا سے ہزاروں مزدوروں کو نوکری سے جبری طور پر فارغ کر دیا گیا‘ اگر سیاسی استحکام اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آتا ہے تو ملکی معیشت میں بھی بہتری پیدا ہو جائے گی اور صنعتکار و سرمایہ دار اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے اپنے سرمایہ کو مزید استعمال میں لائیں گے انہیں مزید افرادی قوت کی ضرورت ہو گی تو جہاں سرمایہ دار کے لیے اپنی آمدنی میں اضافے کے ذرائع پیدا ہوں گے وہاں دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ مزدور کی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام سے زیادہ صنعت دوست ماحول ضروری ہے اور اس کے لیے ایسے حکمران چاہئیں جن کی سوچ کا دائرہ اپنی ذات اور اپنا مفاد نہ ہو جن کے اثاثے اقتدار کے دوران راکٹ کی رفتار سے ترقی نہ کریں‘ جمہوریت جن کے لیے صرف اپنے اقتدار کا نام نہ ہو جو حکومت حاصل کرنے کے لیے کسی کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں‘ بجلی اور گیس کی مسلسل بندش سے صنعتوں میں پیداواری عمل متاثر اور مزدوروں کا روزگار چھن رہا ہے‘ عمران خان قوم کو امریکی غلامی سے نکالنے کی جو جدوجہد کر رہے ہیں وہی قوم اور محنت کش کی خوشحالی کا راستہ ہے۔