مزید خبریں

سوشل میڈیا نے بے زبان عوام کو پلیٹ فارم دیا ہے، ڈاکٹر مصدق ملک

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ سیاست دان و غیرسرکاری ادارے اور میڈیا اس ملک کے اشرافیہ ہیں، سوشل میڈیا نے بے زبان عوام کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے انہیں ایک آواز ملی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز آئی بی اے کے سینٹر آف ایکسیلنس ان جرنلزم کے زیر اہتمام ’’ڈیجیٹل دور میں تنازعات اور امن پر مبنی صحافت کاکردار‘‘ کے موضوع پر جے ایس آڈیٹوریم میں منعقدہ کانفرنس کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاق وزیر فواد چودھری، آئی بی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبرزیدی، سی ای جے کی ڈائریکٹر عنبر رحیم شمسی، سینئر صحافی حامد میر، ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ زینب جنجوعہ، معروف ٹی وی اینکر ماروی میمن، ہیرالڈ کے سابق مدیر و سینئر صحافی بدر عالم، سینئر صحافی بینظیر شاہ، شاہزیب جیلانی، ذیشان حیدر، نامور طنز و مزاح نگاروں یاسر پیرزادہ، علی آفتاب سعید، تمکنت منصور، شہزاد شرجیل، ڈاکومنٹری فلم میکر بینا سرور، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ براک شبیر، مصباح شفیق اور فلم ساز صائم صادق، سینئر صحافیوں، سیاستدان، شعبہ تعلیم اور میڈیا کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین سمیت دیگر نے خطاب کیا، تقریب میں بڑی تعداد میں مہمانوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے پہلے روز 4 مذاکرے ہوئے جس میں میڈیا قوانین، قواعد و ضوابط، اطلاعات تک رسائی کیلیے بے شمار ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور خبر کو پیش کرنے کے نت نئے انداز، جھوٹ پر مبنی خبروں کی بھرمار میں صحافت کا کردار اور ذمے داریاں، دبائو کے سبب سیاسی طنز و مزاح کی ڈیجیٹل میڈیم پر منتقلی، جنگ اور اس کے بعد کی صورتحال کی رپورٹنگ پر سینئر صحافیوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، مذاکرے کا اختتام اس نکتہ پر ہوا کہ معاشرے کو درست اور تصدیق شدہ اطلاعات کی فراہمی کیلیے صحافت کی ضرورت ہے۔ یہ کانفرنس پیس جرنلزم پروگرام کا حصہ ہے جس کا انعقاد سی ای جے نے کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے تعاون سے کیا ہے۔ میڈیا قوانین کے منفی اور مثبت پہلوکے موضوع پر ہونے والے مذاکرے سے ڈاکٹر مصدق ملک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا نے بے زبان عوام کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ (اشرافیہ) کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ اپنا مخصوص سچ کہے، ’’تیرے حق کی ایسی کی تیسی‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کو اگر حکومت ریگولرائز کرتی ہے تو وہ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش ہوتی ہے، بہتر یہ ہے کہ میڈیا خود اپنے آپ کو ریگولرائز کرے۔ پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو نہ صرف سنسر شپ سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ساتھ ساتھ ریگولرائزڈ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالے، سابق صدرجنرل پرویز مشرف سے غلطی ہوگئی کہ انہوں نے میڈیا کو آزاد تو کردیا لیکن ریگولیٹ نہیں کیا، ہمارا میڈیا سیٹھ میڈیا ہے، ہمارا مسئلہ سہہ طرفہ ہے کہ ایک طرف میڈیا کو لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے سے روکنے کیلیے ریگولیشن کی ضرورت ہے دوسری جانب صحافت کو آزاد کرنے کیلیے سنسر شپ کا خاتمہ ہونا چاہیے اور تیسرا معاملہ میڈیا کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہے۔ سینئرصحافی حامد میر نے کہا کہ آزاد میڈیا کا سفر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دورمیں شروع ہوا، جنرل پرویز مشرف نے میڈیا پر پابندیاں عاید کیں۔ ماروی میمن نے کہا کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اپنا قبلہ خود درست کرلے ورنہ کوئی اور کرے گا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی بی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر زیدی نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس میں شریک معروف صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کے درمیان مذاکروں اور مباحثے میں تنازع ہوگا اور اسی بنیاد پر ہم امن پر مبنی حل کی جانب بڑھیں گے۔ سی ای جے کی ڈائریکٹر عنبر رحیم شمسی نے کہا کہ ہم اس کانفرنس میں 2 اہم سوالات اٹھائیں گے اگر لوگوں کو تقسیم کرنے یا مقبول رائے سے آپ کو طاقت اور شہرت ملتی ہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس ڈیجیٹل ایج میں ہمیں صحافت کی ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کانفرنس کے ذریعے ان 2 سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ’’کیا ہمیں صحافت کی ضرورت ہے؟‘‘ کے عنوان سے ہونے والے مذاکرے سے سینئر صحافی بینظیر شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صحافتی ادارے نصف فیصد آبادی پر مشتمل خواتین کو نظر انداز کر رہے ہیں، بجٹ پر ہونے والے ٹیلی ویژن مذاکروں میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی خاتون ماہر معیشت موجود ہے؟۔ مذاکرے کے میزبان شاہ زیب جیلانی تھے جبکہ سینئر صحافی بدر عالم اور ذیشان حیدر مذاکرے کے مقررین میں شامل تھے۔ شاہ زیب جیلانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا صحافی کی ادارتی فیصلہ سازی کو متاثر کر رہا ہے، چند سال قبل تک ایڈیٹوریل میٹنگز میں عوامی مسائل کا احاطہ کیا جاتا تھا آج کل سوشل میڈیا ٹرینڈز پر خبریں بنائی جاتی ہیں۔ سینئر صحافی ذیشان حیدر نے کہا کہ صحافی کو سوشل میڈیا ٹرینڈ کو رپورٹ کرنے کے بجائے اس کے پیچھے موجود اصل کہانی اور اس کی وجوہات کو رپورٹ کرنا چاہیے کیونکہ ہر ٹرینڈ کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی یا وجہ موجود ہوتی ہے۔ ہیرالڈ کے سابق مدیر بدر عالم نے کہا کہ صحافت غیرسیاسی ماحول میں پروان نہیں چڑھ سکتی، ہمارے معاشرے میں غیرسیاسی اقدار سے صحافت بھی متاثر ہو رہی ہے، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اگر صحافت کا مستقبل روشن نہیں ہے تو تاریک بھی نہیں ہے۔ ’’ہنسنا منع ہے‘‘ کے عنوان سے ہونے والے مذاکرے میں شریک ملک کے نامور طنز و مزاح نگاروں یاسر پیرزادہ، علی آفتاب سعید، تمکنت منصور، شہزاد شرجیل نے اتفاق کیا کہ ٹی وی چینلز پر خواجہ سرائوں، عورتوں اور اقلیتوں کو ہدف بنا کر مذاق اڑانا کسی بھی طرح مزاح کے زمرے میں نہیں آتا، ٹی وی چینلز کو اس سلسلے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’سرحدوں کے پار ثقافتی روابط‘‘ کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں معروف پروڈیوسر شفیق نے کہا کہ پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی بقا کیلیے ضروری ہے کہ ہم اردو بولنے یا سمجھنے والے دنیا بھر میںموجود 2 ارب سے زائد لوگوں تک پہنچیں۔ بھارت پاکستان کی شوبز صنعت کیلیے بہت بڑی مارکیٹ ہے اور پاکستان کے ڈراموں اور فلموں کیلیے بڑی مارکیٹ ہے جب تک ہم اس مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں کریں گے ہم اپنی انڈسٹری کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کرسکتے اور نتیجے میں معیاری کام بھی نہیں ہوسکتا۔ مذاکرے کا اختتام اس نکتہ پر ہوا کہ معاشرے کو درست اور تصدیق شدہ اطلاعات کی فراہمی کیلیے صحافت کی ضرورت موجود ہے۔ مذاکرے کے اختتام پر حاضرین کو اپنی رائے کا اظہار اور سوالات کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس موقع پر گزشتہ 2 برس کے دوران انتقال کرجانے والے سینئر صحافیوں ضیاالدین، فرہاد زیدی، طلعت اسلم، آئی اے رحمان، رحیم اللہ یوسف زئی، مہدی حسن، عارف نظامی، خرم بیگ کی صحافت کیلیے خدمات پر ایک مختصر وڈیو پیش کی گئی۔