مزید خبریں

قصور وار کون ؟

وہ اپنے بے جان وجود کو گھسیٹتا چلا جا رہا تھا۔۔۔نہ جانے کب سے یونہی بے سبب سڑکوں کی خاک چھانتا رہا ۔۔۔آخر تھک کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا ۔۔ ۔اس نے اپنی جیب ٹٹولی ایک آخری سگریٹ ہی بچا تھا اس کے پاس۔۔۔سو اسے سلگا کر سڑک پہ بھاگتی دوڑتی زندگی کو ویران آنکھوں سے تکنے لگا۔۔۔وہ سوچتا کہ اتنی مہنگی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے یہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں جنھیں اس بات کا غم نہیں کہ کوئ دوا کی راہ تکتا بیمار،کوئی اسکول کی فیس کی آس لگائے گھر پہ ان کا انتظار کر رہا ہو گا مگر انھیں ان سب مسائل کا کیا پتا یہ لاچارگی تو غریب کی قسمت میں ہے ۔۔۔آج اسے آفس سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ وہ روز دیر سے پہنچنے لگا تھا جو کل تک سب سے مستعد ورکر تھا اب اپنی بیمار بیوی اور چار چھوٹے معصوم بچوں کی وجہ سے روز لیٹ ہو جاتا اور اوپر سے لے دے کہ ایک پرانی پھٹ پھٹی (موٹر سائیکل)تھی جسے تقریباً روز ہی گھسیٹ کر لاتا گویا وہ موٹر سائیکل پر نہیں موٹر سائیکل اس پر سوار ہو کر آتی ۔۔۔آج اسے وہ بھی بیچنی پڑی کیونکہ بجلی کے بل کی ادائیگی جو کرنی تھی مانا کہ فقط ایک بلب اور جھرر جھررکرتا پنکھا ہی چلتا تھا مگر “بجلی “تو استعمال ہوتی ہی تھی ناں تو بس پھر جیب خالی کریں۔۔
اب بیوی کی دوائیاں،بچوں کی اسکول فیس،راشن ،کہاں سے ہو گا سب کچھ سوچ کراس کا گھر جانے کو دل ہی نہ چاہ رہا تھا مگر کب تک؟جانا تو تھا ہی اسے اس نے سگریٹ کا ٹکڑا پاؤں میں مسلا اور سامنے آ کر رکنے والی خان کوچ میں سوار ہو گیا۔ایک بار پھر سڑک پہ بھاگنے والی گاڑیاں اس کی نگاہ میں تھیں۔۔کہ اچانک کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اس سے مسیحا بن کر ہاتھ ملایا ۔۔۔آؤ کہیں بیٹھ کر چائے پئیں وہ اس کے ساتھ بس سے اتر کر ایک ڈھابے پہ جا بیٹھا۔۔۔پریشان ہو؟اس نے پوچھا اور جواب میں ساری کہانی اس نے اس کے گوش گزار کر دی۔اس مسیحا نے اس کے کان میں کچھ کھسر پھسر کی ایک نمبر دیا اور چلا گیا؟ ؟جانے وہ مسیحا تھا یا خوابوں کا خریدار؟بھاری قیمت کے عوض؟اس نے نمبر جیب میں ڈالا اور گھر جانے کی بجائے مطلوبہ پتے پر پہنچ گیا ۔۔۔وہ مشن کے لیے تیار تھا۔۔۔اسے سب مسائل کا حل مل گیا تھا اب دوائیں بچوں کی فیس راشن سب جو ملنے والا تھا ۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتا شہر کے پر رونق بازار کی طرف رواں دواں تھا۔۔۔مگر اس سب کے باوجود اس کی آنکھیں ویران تھیں۔۔۔
دروازے پہ دستک ہو رہی تھی اس کی بیوی نے دروازے کھولا تو ایک لفافہ بنام زوجہ محمد اسلم دہلیز پہ دھرا تھا کھول کے دیکھا تو ہزاروں نوٹ ان کی لاچارگیوں کے حل کے لیے موجود تھے مگر ان کو حل کرنے والا ؟اس کا ساتھ دینے والا شوہر؟اس کے بچوں کا باپ
ارے میاں صاحب سنا آپ نے “بڑے بازار میں بم دھماکہ ہوا ہے بہت تباہی ہوئی ہے ۔
اس کی بیوی کے ہاتھوں سے لفافہ گر کر اس کے قدموں میں جا پڑا اور وہ وہیں فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔
خود کشی حرام ہے اور آج ہمارے معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے مجبور اور بے بس ،نا مساعد حالات کے شکار افراد کو فرار کا بس یہی راستہ دکھائ دیتا ہے ۔۔۔سوچئیے کہیں اس کےذمہ دار ہم تو نہیں؟
OOO