مزید خبریں

معاشی مشکل کا بوجھ عوام برداشت کر رہے ہیں ؟

دو ماہ سے پاکستان کی معیشت میں ہر آنے وال دن مشکل سے مشکل تر ہو تا جارہا تھا لیکن تین دن قبل چین کی جانب سے 2ارب 30کروڑ کے امدادی قرض نے معیشت کو کچھ سہارا دیا اور اب آئی ایم ایف بھی پاکستان کو دیکھ رہا ہے کہ اس کی مشکل میں کمی بھی ممکن ہے اس لیے اس نے بھی پاکستان سے مذکرات کاآغاز کر دیاہے۔لیکن اب بھی شرائط وہی ہیں کہ تیل اس کی مصنوعات او ر بجلی گیس کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔چین میں کورونا کی شدت میں اضافے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت ایک مرتبہ پھر کم ہو نا شروع ہو گئی ہے لیکن اس کا فائدہ عوام کو نہیں دیا جائے گا اس کا کاروبار پر منفی اثر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ چھوٹے کاروبار اس مہنگائی کی لہر میں گزارا نہیں کر سکیں گے جب تک حکام کوئی مداخلت نہ کریں لیکن اس بات کا کسی کوپتا نہیں ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے بے بس ہے۔ ’متوسط طبقے کے کاروبار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر اسی طرح چلتا رہا تو زیادہ تر لوگوں کا کام بند ہو جائے گا۔‘’بہت سی خواتین چھوٹے پیمانے پر کوئی کاروبار چلاتی ہیں۔ عام طور پر ان کی مالیاتی حالت زیادہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کو اپنی بچت پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو کہ ایسے حالات میں زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔‘ دو ماہ سے حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ منصوبہ طے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اس ڈیل کی تفصیلات نے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام سے عام لوگوں کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
’اگر آئی ایم ایف شرائط رکھ کر پاکستان کو اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنے پر مجبور کرے تو روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں اور زیادہ ہو جائیں گی۔ اور اگر یہ حکومت سے شرح سود بھی زیادہ کروا لیں، جو کہ پہلے ہی 13.50 فیصد پر ہے، تو سرمایہ کاری رک جائے گی۔‘ اگر سرمایہ کاری تھم جائے تو شرح نمو بھی متاثر ہو گی اور روزگار کے مواقع بھی کم ہو جائیں گے۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت موجودہ سال میں صرف 3.4 فیصد سے بڑھے گی اور اگلے سال صرف 2.7 فیصد سے۔پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم حصہ ہے اور اکثر پاکستانیوں کا یقین ہے کہ ان کی بیمار معیشت کی دوا اسی میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چین پاکستان اقتصادی راہداری اس ملک کے تمام مسائل کا حل ہے؟
وزارت خزانہ کی جانب سے جو بات کی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ پاکستان اکانومی ’اوور ہیٹڈ‘ ہے یعنی یہ اپنی استعداد اور گنجائش سے زیادہ ترقی دکھا رہی ہے جو کہ پائیدار نہیں ہے۔ان کے مطابق یہ معیشت ایسی ہوتی ہے جس میں پیداوار سے زیادہ اس کی کھپت ہوتی ہے اور یہ کھپت مہنگائی کو بڑھاتی ہے اور معیشت کے لیے خطرناک ہوتی ہے۔اگرچہ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ نئی ملازمتوں کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے تاہم یہ معاشی گروتھ ایک ایسے ملک کے لیے مسائل بھی پیدا کرتی ہے جس کا توانائی اور صنعت کے لیے خام مال پر انحصار درآمدات پر ہو۔
وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے گذشتہ حکومت کی معاشی گروتھ کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرضے اور کھپت یعنی consumption led گروتھ تھی جس کی بنیاد پائیدار نہیں تھی۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے رواں سال جو معاشی گروتھ ہے اس کے پیچھے زرعی اور صنعتی شعبوں میں ہونے والی گروتھ ہے اور یہ گروتھ پروڈکشن پر مبنی ہے یعنی پیداوار ہوئی تو یہ گروتھ بڑھی۔انھوں نے کہا موجودہ حکومت کی جانب سے اگلے مالی سال میں معاشی شرح نمو چھ فیصد پر برقرار نہ رہنے کے خدشے کا اظہار اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ بلند شرح سود اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ معیشت کی ترقی میں اضافہ ممکن نہیں لگتا۔ملک میں مائیکرو اکنامک عدم توازن کی وجہ سے اگلے سال چھ فیصد ملکی معاشی ترقی کا حصول مشکل ہے۔عوا م اور چھوٹے کارروبار کر نے والوں کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیرونی تجارت کے خسارے، ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں و اضح رہے پاکستان مسلم لیگ نواز کی دو ہزار اٹھارہ میں ختم ہونے والی حکومت کے آخری سال میں اقتصادی ترقی کی شرح چھ فیصد سے زائد تھی تاہم تحریک انصاف حکومت کے قیام کے بعد جی ڈی پی گروتھ میں کمی دیکھی گئی اور کورونا کی وجہ سے حکومت کے دوسرے سال میں یہ شرح منفی میں چلی گئی۔گذشتہ سال یہ گروتھ چار فیصد کے قریب تھی اور رواں سال معاشی شرح چھ فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بڑھتی ہے تو اس کے لیے توانائی کی طلب بڑھتی ہے اور پاکستان توانائی کی ضروریات جیسے کہ تیل و گیس و کوئلہ وغیرہ کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار کرتا ہے۔جب توانائی کی ضرورت بڑھے گی تو ملک کا درآمدی بل بڑھے گا اور بیرونی ادائیگیاں بڑھیں گی جس کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے اور ڈالر جب خرچ ہوں گے تو اس کا دباؤ ملک کے فارن ایکسچینج پر آئے گا اور ملکی کرنسی کی قیمت پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔پاکستان کا اقتصادی ڈھانچہ اس طرح ہے کہ جب بھی جی ڈی پی بڑھے گی تو ملک کا تجارتی خسارہ بڑھے گا جس سے ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہوگا۔ پائیدار جی ڈی پی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے۔
ملک میں توانائی کا بحران ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے توانائی کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ اب تک یہ حکومت شرح سود میں چار فیصد تک اضافہ کر چکی ہے اور امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں اس شرح سود میں مزید اضافہ ہو گا جو 20 فیصد تک جا سکتا ہے۔ اس بلند شرح سود کے ساتھ آنے والے مالی سال میں چھ فیصد گروتھ ممکن نہیں۔ایک جانب ملک کی برآمدات میں اضافے کو بیرونی تجارت کے شعبے میں خوش آئند پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 100 فیصد بڑھ گیا ہے، ان چھ مہینوں میں تجارتی خسارہ تقریباً 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
تجارتی خسارے میں اس بے تحاشہ اضافے کی وجہ ملکی درآمدات میں ساٹھ فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے جو چھ مہینوں میں تقریباً 40 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔پاکستان کے تجارتی خسارے میں 100 فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کے باعث رقم کے حصول کے لیے اسے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پروگرام ہے جو اپنی سخت شرائط کی وجہ سے پہلے ہی ملک میں مہنگائی کی لہر کو جنم دے چکا ہے۔ان شرائط کے تحت حال ہی ملکی پارلیمان میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ کے باعث مزید مہنگائی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اس سال پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے 23 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے سخت شرائط پر رضامندی اختیار کی جس کے جاری ہونے کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضے کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گا۔ ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر اس وقت قابو پانے کی ضرورت ہے تاہم درآمدات میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے یہ خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
معاشی بدحالی کے سبب سیاسی قیادت عوام میں اپنا اعتماد کھو رہی ہے۔موجودہ نازک صورتحال کی ذمہ داری سالہا سال سے جاری غلط پالیسیوںپر جاتی ہے جبکہ اب ملک آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے نرغے میں بری طرح سے پھنس چکا ہے اور حکومت کے پاس اس شکنجے سے نکلنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ کئی دہائیوں سے عوام پس رہے ہیں جبکہ اشرافیہ پھل پھول رہی ہے جس نے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ڈالر کی تباہ کاریوں کے ساتھ اب کورونا وائرس کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے بجٹ کی منظوری بھی لٹکی ہوئی ہے اور اقتصادی بحران خوفناک ہوتا جا رہا ہے جس نے عوام کی قوت خرید ختم کر دی ہے۔صاحب ثروت افراد کے بجائے غریبوں پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے جس نے ٹیکس اصلاحات کے دعوے کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ فیٹف کی چنگل سے نکلنے کی کوشش تو کی جا رہی ہے مگر عوام کو یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس مصیبت میں ملک کو پھنسانے والے کون تھے اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے۔فیٹف کی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا جا رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فیٹف عالمی قوتوں کا آلہ کار ہے۔ اس وقت ملک کی آزادی خودمختاری اقتدار اعلیٰ اور ساکھ خطرات سے دوچار ہے مگر اشرافیہ نوازی یوری قوت سے جاری ہے۔ پانی کے بحران نے بھی ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں ٹینکر مافیا نے پانی کی قیمت میں چار سے پانچ سو گنا اضافہ کر دیا ہے۔ بڑی رہائشی سوسائیٹیاں ایک طرف تو مکینوں سے پانی کی فراہمی کی فیس لے رہی ہیں جبکہ دوسری طرف پانی بند ہے جس سے عوام پریشان اور تعمیرات بند ہو گئی ہیں۔ کئی رہائشی سوسائیٹیوںکی انتظامیہ میں موجود کالی بھیڑیں ٹینکر مافیا سے مل کر عوام کو لوٹ رہی ہیں جس کا کوئی نوٹس بھی نہیں لے رہا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ ایشیا و بحرالکاہل کے خطے کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں رواں سال سالانہ بنیاد پر ( گزشتہ سال کے مقابلے میں )1.6 فیصد کمی کا خدشہ ہے، شرح نمو پر دباؤ کم کرنے کے لیے عام آدمی کے لیے خوراک اور تیل کی قیمتوں میں کمی کی جائے۔آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں ایشیا و بحرالکاہل کے ممالک کی جی ڈی پی کی شرح نمو 6.5 رہی، تاہم رواں سال (2022 ) اس کی شرح کم ہوکر 4.9 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ قبل ازیں ،سال رواں کے آغاز پر آئی ایم ایف نے ایشیا و بحرالکاہل کے ممالک کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5.4 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی تھی ،تاہم عالمی سطح پر اقتصادی صورتحال کے پیش نظر اس نے خطے کی جی ڈی پی کی شرح نمومیں مزید 0.5 فیصد کی کمی کا عندیہ دیتے ہوئے اپنے نظرثانی شدہ تخمینہ میں کہا ہے کہ رواں سال ایشیا و بحرالکاہل کے ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 4.9 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف نے خطے کے ممالک کو تجویز پیش کی ہے کہ معاشی بڑھوتری پر دباؤ کو کم سے کم کرنے کے لیے عام آدمی کے لیے خوراک اور تیل کی قیمتوں میں کمی کریں، اسی طرح سماجی عدم تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاکہ سری لنکا جیسی صورتحال سے بچا جا سکے، مزید برآں وسط مدتی مالیاتی پالیسی کے تحت اقدامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ افراط زر میں اضافہ پر قابو پایا جا سکے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ خطے کے ممالک اقتصادی اصلاحات کے ذریعہ طویل مدتی معاشی ترقی کو یقینی بنائیں۔اس صورتحال کا براہ راست اثر پاکستان بھی پڑسکتا ہے،لیکن حکومت کے پاس پاکستانیوں کو بچانے کے لیے نہ طویل المدتی کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی ملک میں اب تک کہیں مختصر المدتی کا کوئی ایجنڈا نظر آرہاہے۔