مزید خبریں

مغرب معاہدوں ،انتخابات اور فوجی انقلاب کے ذریعے کٹھ پتلی مسلم حکمران اقتدار میں لاتا ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین)مغرب خفیہ معاہدوں‘ طے شدہ انتخابی نتائج اور فوجی انقلاب کے ذریعے کٹھ پتلی مسلم حکمران اقتدار میں لاتا ہے‘ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد استعماری قوتوں کا اثر بڑھ گیا‘ مسلم امہ میں قیادت کا فقدان ہے‘ خود ساختہ جمہوری نظام مغربی اجارہ داری کا اہم ہتھیار ہے‘ مسلم ممالک کی معیشت کو سودی نظام نے جکڑ لیا‘ مسلم حکمرانوںکو عوامی حمایت حاصل نہیں‘ مغرب کی مدد سے حکومت کر رہے ہیں‘ مسلمانوں کی نظر میں اسلامی نظام کو بے توقیر کردیا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کی سابق استاد ڈاکٹر جہاں آرا لطفی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمر اور اقرا یونیورسٹی کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی استاد ڈاکٹر فاطمہ آغا شاہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مسلم دنیا کے حکمران مغرب کے آلہ کار کیوں ہیں؟ ڈاکٹر جہاں آرا لطفی کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا کے حکمران اللہ سے ڈرنے کے بجائے غیر مسلم طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکے ہیں جس کی بنا پر مسلم ممالک بظاہر مغربی اور استعماری طاقتوں سے آزاد ہو چکے ہیں لیکن حکمرانوں کی وجہ سے وہ اب بھی ان کے غلام ہیں‘کیونکہ یہ حکمران مغربی طاقتوں کی سپورٹ پر ہی اپنی راجدھانی قائم رکھ سکتے ہیں‘ مغربی طاقتیں ان کی تربیت اور حمایت میں پیش پیش رہتی ہیں‘ ان حکمرانوں کا زور قائم رکھنے کے لیے ان کو ہر قسم کی بھر پور معاونت فراہم کرتی ہیں‘ کبھی یہ عہدے لندن یا واشنگٹن میں کیے گئے خفیہ معاہدوں اور الیکشن کے طے شدہ نتائج کے ذریعے محفوظ کرلیے جاتے ہیں اور کبھی مغرب کی ایما پر فوجی انقلاب کیذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں‘ صورت کچھ بھی ہو‘ مقصد مغرب کی اجارہ داری اور غیر اسلامی نظام کا نفاذ جاری رکھنا ہے تو اصل چیز وہ سپورٹ ہے جس کی بنیاد پر اسلامی ممالک میں نااہل حکمران ایک کے بعد ایک آتے چلے جا رہے ہیں‘ اتفاقاً اگر کوئی مخالفت پر کمر بستہ ہو بھی جائے تو اس کو زیادہ عرصے برداشت نہیں کیا جاتا‘ جیسے معمر قذافی اور صدام حسین نے ان کے اس تسلط سے جان چھڑانی چاہی تو انہوں نے ان دونوں کو ان کے اپنے ہی لوگوں کی مدد سے مروا دیا‘ بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم حمکران سپورٹ لینے کے لیے مغرب کے آلہ کار بنتے ہیں جس میں یہ خود ساختہ جمہوریت کا فرسودہ ، ناکام اور غیر اسلامی نظام ان کی مدد کرتا ہے اور جہاں بادشاہت ہو وہاں بھی جس کو ولی عہد نامزد کیا گیا ہو اس کی جگہ کسی دوسرے شاہی فرد کو بادشاہ بھی بنادیا جاتا ہے‘یوں سب ان کی سپورٹ کے متمنی رہتے ہیں اور ان کی پکار پر آمنا صدقنا کہتے ہیں۔ ثریا قمرکا کہنا تھاکہ جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں‘ یہ انگریزوں کے قبضے میں تھا اور یہاں نوآبادیاتی نظام رائج تھا جب وہ گئے تو اپنی باقیات چھوڑ کر گئے جن میں سے ایک چیز یہ تھی کہ انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ اس قوم کو ان کے اصل سے کاٹنا ہے یعنی ہماری زبان اور ہماری تہذیب جو ہمارا اثاثہ تھی‘ ہماری دینی کتابیں عربی اور فارسی زبان میں ہیں‘ ان سے ہمیں دور کردیا گیا‘ انہوں نے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو رائج کیا اور انگریزی کو بنیادی ضرورت بنا کر ہمیں اصل سے کاٹ دیا ‘ پھر جب پاکستان بنا تو یہاں کا جو بھی نظام کار ہے‘ وہ عین اسلامی تو نہیں بن سکا‘ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جو افراتفری مچی اور اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کھیلتی رہی‘ اس طرح ہم مغرب کی گود میں چلے گئے حکمرانوں کے جو دورے تھے وہ اس طرح ہوئے گویا ہماری ضروریات ان سے جڑی ہوئی ہیں‘ گویا نئے آزاد ہونے والے ملک ان کے دست نگر ہوجائیں‘ ایک سرمایہ دارانہ سودی نظام مسلط کیا اس نظام سے امریکا نے سب کو اپنا تابے بنا لیا‘ پوری دنیا میں56 یا 57 اسلامی ممالک ہیں‘ان میں سیکون مکمل اسلامی ریاست ہے ‘ جب تک مسلم حکمران ان کے تابے ہوکر رہیں گے تو ان کے معاملات ٹھیک رہیں گے جہاں انہوں نے اختلاف کیا وہاں انہیں نقصان ہوگا اور انہیں اپنی ملکی معیشت کو چلانا مشکل ہو جائے گا‘ سیدھی سی بات یہ ہے کہ پوری مسلم امہ کو اتحاد کرکے اپنے لیے خود لڑنا پڑے گا‘ اس میں سعودی عرب کا اہم کردار ہے‘ اس پر سارے اسلامی ملک انحصار کرتے ہیں کیونکہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ وہاں ہیں تو سعودی عرب سے ایک دینی، قلبی اور روحانی تعلق ساری مسلم امہ کا ہے لیکن جس طرح کی وہ بندشیں لگا رہا ہے حتیٰ کے عمرے اور حج پر بھی تو‘ اس سے آپ کیا سمجھتے ہیں‘ اس عمل کو بھی وہ ایک ایسا عمل کر دینا چاہتے ہیں گویا تفریح کا ایک ماحول ہو اور اس کو بھی کنٹرول اور وقت کا پابند کردینا چاہتے ہیں‘ یہی بنیادی وجہ ہے اور کوئی قائد ہمیں ایسا نظر نہیں آ رہا جو ان کے سامنے کلمہ حق کہہ سکے‘ مسلم امہ میں قیادت کا فقدان بنیادی سبب ہے‘ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد استعماری قوتوں کا اثر بڑھ گیا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ آغا شاہ کا کہنا تھا کہ دین سے دوری سب سے بنیادی وجہ ہے جب تک ہم نے اپنا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام اسلامی اصولوں پر وضع رکھا ہم کامیاب رہے‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہم مغرب سے مرعوب ہوئے‘ مغرب نے سلطنت عثمانیہ سے یہ سیکھ لیا تھا کہ مسلمان کو ایک امت نہیں بننے دینا‘ یہی ان کی طاقت ہے‘ ان کے اسلامی نظام کو ان کی نظر میں بے توقیر اور بے حیثیت بنا کر پیش کیا جائے‘ آزادی کے نام پر فحاشی کو عام کیا جائے‘ اسلامی معاشرے کو تباہ کیا جائے‘ سودی نظام اور قرضے کے بوجھ سے ان کی معیشت کو تباہ کی جائے اور اس طرح مسلمانوں کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا کر رکھا جائے تاکہ من مانی پالیسی ان پر لاگو کر سکیں‘ مسلم ممالک میں کرپٹ حکمرانوں کو مسلط کیا جائے‘ جو ان کے آلہ کار کے طور پر کام کریں۔مسلم دنیا کے حکمران مغرب کے آلہ کار کیوں ہیں؟