مزید خبریں

 بجٹ اناملیز

وزارت خزانہ کی جانب سے تشکیل دی گئی بجٹ اناملیز کمیٹی کا اجلاس زبیر موتی والا کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں ممبر (کسٹمز پالیسی) ایف بی آر ثریا احمد بٹ، ممبر (آئی آر پالیسی) ایف بی آر آفاق احمد قریشی، چیئرمین بزنس مین پینل میاں انجم نثار ، صدر کے سی سی آئی محمد ادریس، صدر اسلام آباد چیمبر شکیل منیر، صدر اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) غیاث خان، سی ای او پاکستان بزنس کونسل احسان اے ملک، نائب صدرکوئٹہ چیمبر امجد صدیقی، سیکرٹری جنرل او آئی سی سی آئی عبدالعلیم، میوچل فنڈز اور انشورنس سیکٹر کے نمائندے سید اسد علی شاہ، ماربلز ایسوسی ایشن کے نمائندوں و دیگر نے بھی اجلاس میںشرکت کی جبکہ اناملیز کمیٹی کے دیگر ممبران بھی زوم کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں کمرشل امپورٹرز کے لیے فائنل ٹیکس ریجیم ( ایف ٹی آر) کے تحت ودہولڈنگ ٹیکس پر2فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو کہ سراسر امتیازی سلوک ہے۔ تجارت اور صنعت کے درمیان فرق 1% سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے لہٰذا کمرشل امپورٹرز پر ودہولڈنگ ٹیکس کو ایس آر او 1125 کے تحت فائنل ٹیکس ریجیم ( ایف ٹی آر) کے ساتھ 2 فیصد پر برقرار رکھا جائے۔پلاسٹک اور پالیسٹر یارن کی کمرشل امپورٹ پر 3 فیصد ویلیو ایڈڈ سیلز ٹیکس عائد کرنا بلا جواز ہے جسے واپس لیا جا سکتا ہے۔زرعی فضلہ سے تیار کردہ مویشیوں کے چارے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس PCT کوڈ 2308.0000 مویشیوں کے چارے کے لیے دالوں کی بھوسی کچرے اور PCT 2306.9000 پام کرنل کیک/ ایکسپلر کو واپس لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صرف دودھ دینے والے جانوروں کو کھلانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔برآمدات کو بڑھانے کے لیے SRO کو بحال کرنا ناگزیر ہے ۔ SRO1125 کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ بحال کیا جائے اور 5 برآمدی شعبوں کے لیے نوپیمنٹ نو سیلز ٹیکس ریفنڈ کے نظام کو دوبارہ متعارف کرایا جائے۔سوڈا ایش پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی تھی جسے واپس لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ اورینٹڈ انڈسٹری کے لیے بنیادی خام مال ہے۔اسنیک مینوفیکچررز کے لیے ذائقوں کی درآمد پر ڈیوٹی کی شرح 11 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دی گئی جسے 11 فیصد کی سابقہ سطح پر لانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے بہت ہی احسن طریقے سے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس واپس لینے کا اعلان کیا تھا لیکن سولر پینلز کو چلانے کے لیے درکار دیگر اشیاء ابھی بھی بھاری سیلز ٹیکس کی زد میں ہیں جس کی نشاندہی ایک اناملی کے طور پر کی گئی ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔انڈینٹنگ کمیشن زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ ہے لہٰذا اسے بنیادی طور پر برآمدی آمدنی کے طور پر اور دیگر برآمدی آمدنی کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔فنانس بل کی شق 5 (29) بی کے تحت پلاسٹک خوردنی تیل کی پیکیجنگ میٹریل اور کاغذ کو ایف ٹی آر سے خارج کر دیا گیا ہے جو کہ امتیازی ہے لہٰذا فائنل ٹیکس ریجم ( ایف ٹی آر) کو ان اشیاء تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔جیولری کے تمام ریٹیلرز کو ٹائر۔1 ریٹیلرز میں شامل کیا گیا ہے جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور جیولری سیکٹر کو فائنل ٹیکس ریجیم ( ایف ٹی آر) کے تحت اجازت دی جانی چاہیے چونکہ بریڈ پر تمام دیگر افراد کو سیلز ٹیکس میں چھوٹ کی اجازت ہے۔ اسی لیے ٹائر۔1 ریٹیلرز کے ذریعے فروخت ہونے پر اسے بریڈ اینڈ رسک تک بڑھایا جانا چاہیے۔فرنیچر کی دکانیں، شو رومز جو نہ تو قومی یا بین الاقوامی اسٹورز چین کا حصہ ہیں اور نہ ہی ایئر کنڈیشنڈ مالز میں واقع ہیں انہیں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 2 کی ذیلی دفعہ اے۔ 43کے زمرے سے خارج کیا جانا چاہیے۔فرنیچر کی تمام چھوٹی دکانوں، شو رومز کو کاٹیج انڈسٹری( 5 اے بی) کے طور پر قرار دیا جا سکتا ہے اور کورڈ ایریا کی شرط کو ختم کیا جا سکتا ہے نیز چھوٹے فرنیچر ریٹیلرز کو فکسڈ ٹیکس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔یہ کاریگروں، مزدوروں، فرنیچر کی دکانوں، شورومز مالکان کو مزید ہراساں کرنے سے بچائے گا اور ان کا کاروبار ملک بھر میں ہاتھ سے تیار کردہ تجارت کو محفوظ رکھے گا۔فنانس بل کی متعلقہ شق کے تحت اگرچہ غیر رجسٹرڈ افراد کو سپلائی کے لیے شناختی کارڈ کی شرط معاف کر دی گئی ہے لیکن فنانس بل کی مذکورہ شق اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں متعلقہ دفعات میں مناسب ترمیم کی جا سکتی ہے تاکہ غیر رجسٹرڈ خریداروں اور 3 فیصد مزید ٹیکس کے بارے میں تفصیلات کی فراہمی سے متعلق کئی تحفظات کو واضح کیا جا سکے۔کالی چائے پر ٹیرف میں اناملیز کو بھی دور کیا جا سکتا ہے اور بعض علاقوں کو دی گئی چھوٹ کو واپس لینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اسمگلنگ کی لعنت کو ختم کریگا بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی بھی کرے گا۔پنسلوں پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 6 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی اور اسٹیپلز کی تیاری کے لیے پرسجن وائر پر عائد30 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔بحری جہازوں اور کشتیوں پر عائد 17 فیصد ٹیکس کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور قومی جہاز رانی پالیسی 2001 کی توثیق کے مطابق زیرو ڈیوٹی، استثنیٰ کی حیثیت بحال کی جائے جو کہ 2030 تک کارآمد ہے۔ چونکہ لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی عارضی مدت کے لیے ہے۔ اس لیے اسے اٹھانے کی ضرورت ہے اور ٹیرف ریشنلائزیشن کے ذریعے درآمدات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔سیکشن 8B ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کو آؤٹ پٹ ٹیکس کے 90% فیصدکی حد تک محدود کرتا ہے۔ فی الحال، اگر ماہانہ برآمدات کل فروخت کے 50% سے زیادہ ہوں تو یہ فراہمی لاگو نہیں ہوگی۔یارن کے تاجروں کو 14 ماہ سے پہلے رقم کی واپسی کا دعوی کرنے کی اجازت نہیں ہے جو کہ ایک سراسر ناانصافی ہے اور اسے دوسرے تاجروں کے برابر لانے کی ضرورت ہے۔ایس آر او 598 (I) 2022 کے نفاذ کو بعض اشیاء پر پابندی کے ساتھ 31 جولائی 2022 تک بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ پائپ لائن میں موجود کنسائنمنٹس کو کسٹمز سے کلیئر کروایا جاسکے۔آٹو پارٹس کے ٹیرف کو معقول بنانے کی ضرورت ہے جو پاکستان میں تیار نہیں ہو تے مگر اسمگلنگ کا شکار ہیںاس لیے آٹو پارٹس پر ڈیوٹی آٹو پارٹس کی تفصیلات کے مطابق لگائی جائے نہ کہ اس بنیاد پر کہ اسے کس گاڑی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔فاٹا، پاٹا کو دی جانے والی رعایتوں کی وجہ سے اسٹیل بارز کی قیمت پورے پاکستان سے تقریباً 40 فیصد کم ہے لہٰذا مقامی طور پر اسٹیل کے مینوفیکچررز کو برابری کی بنیاد پر یکساں کاروباری مواقع فراہم کرنے کے لیے اسے معقول بنانے کی ضرورت ہے۔ایئر لائنز نے ٹریول ایجنٹس کو کسی بھی قسم کا کمیشن دینا بند کر دیا ہے اس لیے ٹریول ایجنٹس کے ساتھ چھوٹے تاجروں کے ساتھ بھی یکساں سلوک کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ انہیں ایف ٹی آرکے تحت لایا جا سکتا ہے اور بجلی بلوں کی فیصد کی بنیاد پر چارج کیا جا سکتا ہے۔مزید برآں ہائی کاربن اسٹیل وائر راڈز کی درآمد پر 30 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کو واپس لینے کی ضرورت ہے پی وی سی الیکٹرک انسولیشن ٹیپس کی درآمد پر انکم ٹیکس کی شرح 2 فیصد تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔ماربل سیکٹر کے ساتھ بھی اسٹیل ری رولرز جیسا مساوی سلوک کرنے کی ضرورت ہے اور بجلی بلوں کے ذریعے فکسڈ ٹیکس کی اجازت دی جائے۔میوچل فنڈز کی صورت میں ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 62 اور 63 کے تحت دیے گئے ٹیکس کریڈٹس محصولات کی وصولی پر اثر انداز نہیں ہوں گے لہٰذا اسے سابقہ سطح پر لایا جا سکتا ہے۔ہائیڈروجن پر آکسائیڈ پر ریگولیٹری ڈیوٹی واپس لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کسی بھی قسم کے پروسیس ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل اور دیگر متعلقہ صنعتوں کا بنیادی خام مال ہے۔نٹنگ آئل پر 26 فیصد ڈیوٹی کی شرح نافذ کی گئی ہے جسے اسپننگ آئل کی سطح پر لانے کی ضرورت ہے۔وون فیبرک کی درآمد پر ڈیوٹی کی کم شرح کے باعث ویونگ انڈسٹری کو نقصان ہو رہا ہے اور اسے موجودہ صلاحیت کے مطابق چلانے اور توسیع کے لیے مزید تعاون کی ضرورت ہے۔بوپیٹ فلم پر ڈیوٹی 16 فیصد کر دی گئی ہے لہٰذا استدعا کی گئی ہے کہ گزشتہ 20 فیصد شرح کو کم نہ کیا جائے۔مقامی طور پر پیدا ہونے والے کوئلے کو بغیر کسی ان پٹ ایڈجسٹمنٹ کے 2500 روپے کی کم از کم قیمت فروخت کی اجازت دی گئی تھی جسے موجودہ فنانس بل میں واپس لے لیا گیا ہے۔ اس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے جو اینٹوں کے بھٹے میں استعمال ہو تا ہے اور اینٹیں تعمیراتی شعبے میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے مختص کیے گئے 17 ارب روپے 15 ارب ڈالر کے آئی ٹی برآمدات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس مختص رقم کو 75 ارب سے 100 ارب روپے تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ان کے علاوہ ایف پی سی سی آئی، او آئی سی سی آئی، پی بی سی، کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ اور کئی دیگر ایسوسی ایشنز کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے بہت سے دیگر متعلقہ بے ضابطگیوں اور اہم مسائل کو پیش کیا گیا۔