مزید خبریں

بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس ناقابل قبول ہے ، ایف پی سی سی آئی

کراچی (اسٹاف رپورٹر) قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی شبیر منشاء نے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس کے نفاذ کی سختی سے مذمت کی ہے جوکہ پہلے ہی 29 فیصد کا بھاری کارپوریٹ ٹیکس ادا کرتی ہیں اور ملک میں لاکھوں ملازمتیں بھی پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک کارپوریشنوں سے 39 فیصد ٹیکس وصول کرتے ہو ئے معیشت کا پہیہ رواں دواں نہیں رکھ سکتا۔ مزید برآں، نجی شعبے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے کی جانے والی انویسمنٹ اس طرح کے کاروبار مخالف حالات میں مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ شبیر منشا ء نے وضاحت کی کہ متاثر ہونے والی صنعتوں میں تمام بڑی صنعتیں شامل ہوں گی۔ یعنی سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹوموبائل، سگریٹ، مشروبات، کیمیکلز اور ایئر لائنز جو کہ کل 13 صنعتیں بنتی ہیں۔ مزید برآں، باقی تمام صنعتوں پر بھی 4 فیصد اضافی ٹیکس عائد کر دیاگیا ہے۔قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی نے اس بات پر بھی صدمے کا اظہار کیا کہ وفاقی بجٹ 2022-23 کا اعلان صرف دو ہفتے قبل کیا گیا تھا اور اس میں صنعتوں پر کوئی سپر ٹیکس نہیں لگایا گیا تھااور یہ ایک انتہائی اچانک اور صنعت مخالف اقدام ہے۔ شبیر منشاء نے ایف پی سی سی آئی کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ حکومت کو موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے راستے تلاش کرنا چاہیں کیونکہ یہ صنعتوں، برآمدات، روزگار اور اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچائے بغیر زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا واحد عملی اور پائیدار طریقہ ہے۔ شبیر منشا ء نے گہری تشویش کے ساتھ نوٹ کیا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) میںاس فیصلے پر شدید بے چینی پا ئی گئی اور صرف 20 منٹ کے تھوڑے سے عرصے میں KSE-100 انڈیکس میں 2,055 پوائنٹس یعنی کے 4.81 فیصد کی کمی کے بعد جمعہ کے دن ٹریڈنگ کو معطل کرنا پڑا۔ شبیر منشا ء نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں کاروبار کرنے کی لاگت پہلے سے ہی بلند ترین سطح پر ہے اور 13.75 فیصد شرح سود معیشت کو کسی بھی بامعنی شرح سے تر قی نہیں کرنے دے گی اور جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں نے ہمیں پہلے ہی غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ مزید برآں، یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو کاروباری، صنعتی اور تجارتی اسٹیک ہولڈرز سے فوراً مشورہ کرنا چاہیے کہ شرح سود کو کیسے اور کب کم کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ کاروباری ادارے اس کے مطابق اپنے آنے والے سال کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ شبیر منشا نے اس بات پر زور دیا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر پی ڈی ایل کا نفاذ کاروبار کرنے کی لاگت کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دے گا اور اس کے ذیلی اثرات افراط زر کو مزید ہوا دیں گے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت تاجر برادری کو پی ڈی ایل پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی اپنی انڈراسٹینڈنگ پر اعتماد میں لے۔ قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کے نفاذ کی صورتحال پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔