مزید خبریں

آئی ایم ایف سے جان نہ چھڑائی تو خدانخواستہ ایٹمی ہتھیاروں کو گروی رکھناپڑسکتا ہے،سراج الحق

لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں سنگین معاشی بحران کی ذمہ دار ہیں۔ آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط پر بلاچوں چراں عمل درآمد کر کے قوم کے احساس غلامی اور بے بسی میں مزید اضافہ کیا گیا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے نتیجے میں عوام مایوس اور ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں، آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہ نکلے تو خدانخواستہ ہمیں ایک دن ایٹمی ہتھیاروں کو گروی رکھنا پڑے گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں اسلامی نظام معیشت نافذ کیا جائے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کو ختم کر کے قومی وسائل کو غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ سود پر مکمل پابندی اور غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں، پالیسیوںمیں بہتری اور سنجیدگی کا راستہ اپنایا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک موجودہ بحران سے نکل کر ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر ابھر سکے۔ وہ اپنی صدارت میں اسلام آباد میں ہونے والی ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی کے زیراہتمام قومی مشاورت میں ملک اور بیرون ملک سے نامور ماہرین معیشت نے شرکت کی اور پاکستان کو درپیش سنگین معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ چارٹر تجویز کیا۔ مشترکہ معاشی چارٹر میں غیر ملکی قرضوں اور آئی ایم ایف پرانحصار کو ختم کرنے، حکمران اشرافیہ کے لیے مراعات کے خاتمے، انتظامی مصارف میں کمی، اسلامی معیشت کے ماڈل کو اپنانے، نظام زکوٰۃ و عُشر کے نفاذ اور دیگر انقلابی اقدامات متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ سنگین معاشی بحران کی وجہ موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔ مقررین نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے قومی معیشت اس وقت بندگلی میں داخل ہو چکی ہے اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کے پاس تیل خریدنے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے فنڈز نہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکمرانوں نے معیشت میں بہتری کے لیے غریب قوم سے ہی قربانیاں لینے کے فیصلے جاری رکھے تو عوام کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہو گا جس سے ملک میں تقسیم اور نفرتیں بڑھیں گی اور انارکی پھیلے گی۔صدارتی خطاب میں سراج الحق نے کہا کہ ہماری حکومتیں آج سے نہیں بلکہ عرصہ دراز سے فیصلوں کے لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھتی ہیں، حکمران بیرونی ڈکٹیشن پر شرم کی بجائے فخر محسوس کرتے ہیں، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کا بچہ بچہ مقروض اور لاکھوں نوجوان ڈگریاں اٹھائے بے روزگار پھر رہے ہیں۔ مبالغہ نہیں، مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے عام آدمی کا سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ 9ہزار ارب روپے کے بجٹ میں سے 4ہزارارب تو بیرونی قرضوں میں ، بقیہ رقم دفاعی اخراجات اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو چلی جائے گی۔ حکومت بتائے کہ ترقیاتی کاموں اور عوام کی فلاح کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ آئی ایم ایف کے پروگرام کو خیرباد اور کرپشن کے ناسور کو ختم کیے بغیر معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی، جب تک وزرا کی مراعات ختم نہیں کی جاتیں اور غریبوں پر ٹیکسز کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا، حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ تینوں بڑی جماعتیں ملک کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار ہیں۔ ن لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی آج بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ قوم کو چاہیے کہ وہ اس حکمران ٹولے کے ساتھ وہی سلوک کرے جو 75برس سے یہ لوگ غریبوں کے ساتھ کر رہے ہیں،کرپشن زدہ لوگوں کو بار بار آگے لانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکمران وہ لوگ ہیں جو عوام کا خون نچوڑ کر اپنی نسلوں کے لیے مال اکٹھا کر رہے ہیں، پنڈوراپیپرز اور پاناما لیکس میں ان حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ہیں۔ قوم پر مسلط جاگیردار، وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ داروں نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے نیب کا ادارہ ختم کر کے ملک میں پہلے سے کمزور احتساب کے عمل کو مکمل طور پردفن کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ رونے دھونے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، قوم اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے، معیشت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں قرآن و سنت کے نظام کو رائج کر کے ہی ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا جا سکتا ہے اور صرف جماعت اسلامی ہی یہ اہلیت رکھتی ہے کہ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکے۔ امیر جماعت نے معیشت پر ’’قومی مشاورت‘‘ کے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور اس عہد کا اعادہ کیا کہ عوام کے حقوق کے تحفظ اور پاکستان کی بہتری کے لیے جماعت اسلامی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اسلام آباد میں ہونے والی قومی مشاورت میں پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر عتیق ظفر، ایڈووکیٹ قیصر امام، ڈاکٹر غزالہ، پروفیسر انور علی، فرخ سلیم، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر عابد سلہری، حافظ عاکف سعید، احمد علی صدیقی،کانت خلیل، نائب امرا جماعت اسلامی ڈاکٹر فریدپراچہ، میاں محمد اسلم، ایم این اے عبدالکبرچترالی، عباس رضا، عزیز نشتر، ظفر بختاوری، فرحان الحق عثمانی، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور دیگر ماہرین اور قائدین نے خطاب کیا۔علاوہ ازیںموجودہ انتہائی سنگین معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین اور تشویش ناک دور سے گزررہاہے۔ آئی ایم ایف کی بدترین غلامی اور ان کی تمام ظالمانہ شرائط اور مطالبات پر بلا چوں وچرا عمل درآمد کی وجہ سے قوم کے احساس غلامی و بے بسی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ 20دنوں میں پیٹرول کی قیمت میں 84روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 120روپے گیس کی قیمتوں میں 45فیصد اور بجلی کی قیمت میں 9روپے فی یونٹ کے اضافہ سے عام آدمی اپنے ہی حکمرانوں سے خوفزدہ ہوگیاہے۔ معیشت اس بند گلی تک پہنچ چکی ہے کہ جس سے نکلنے کاکوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ حد یہ ہے کہ حکومت کے لیے تیل امپورٹ کرنے کے لیے ایل سی کھولنا بھی مشکل ہوگیاہے۔ ایف اے ٹی ایف نے تمام شرائط مکمل ہونے پر سوائے شاباش کے کچھ نہیں دیااور گرے لسٹ سے نکالنا ایک مرتبہ پھر ملتوی کردیاگیا ہے۔ ان حالات میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے اور اپنا حق احتجاج استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک کے نامور ترین ماہرین معیشت اور اصحاب فکر ونظر کو ایک قومی مشاورت میں جمع کیاہے تاکہ ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیاجاسکے۔ ملک کے ماہرین معیشت کے مشورہ سے تیار ہونے والے قومی معاشی چارٹر کے اہم نکات یہ ہیں۔ (1)ملکی و غیرملکی قرضوں پر انحصار نے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اس سال کا قومی بجٹ بھی 44366ارب روپے کے سرکاری اور 2470ارب روپے کے گردشی قرضہ کی وجہ سے 3798ارب روپے کے خسارے کابجٹ ہے۔سخت ترین اور کڑی شرائط پر آئی ایم ایف کا پیکیج لیا گیاہے او ر قسط حاصل کرنے کے لئے بھی آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہواہے اس کی شرائط انتہائی سخت ہیں نیز اب مزید مطالبات کی فہرست سامنے آئی ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ ہم بحیثیت قوم خود انحصاری،خود کفالت، سادگی اور ملکی وسائل پر انحصار کا فیصلہ کریں اور پارلیمنٹ کے فیصلہ کے تحت بطور قومی پالیسی مستقل بنیادوں پر طے کردیاجائے کہ پاکستان آئندہ کبھی بھی آئی ایم ایف کاکوئی پیکیج نہیں لے گااور آئندہ ایساکرنے والی حکومت قومی مجرم قرار پائے گی۔ (2)بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ہر بار عوام سے ہی قربانی لی جاتی ہے،اب بھی عوام کے لیے پیٹرول، ڈیزل،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے ان پرناقابل برداشت مہنگائی مسلط کی گئی ہے۔اس مرتبہ قوم کامطالبہ ہے کہ سارا بوجھ اشرافیہ پر ڈالاجائے۔ تمام سول وملٹری بیورو کریسی،وزراء،پارلیمنٹیرین اور ججزکی بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔ بطور پالیسی کردیا جائے کہ کسی کو بھی ذاتی استعمال کے لیے بطور مراعات ایک لیٹر پٹرول بھی مفت نہیں دیاجائے گانہ ہی بجلی و گیس کے مفت یونٹس فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے برعکس غریبوں کے لیے انکم سپورٹ پروگرام، ہیلتھ کارڈ،موٹر سائیکل سواروں کے لیے رعایتی پیٹرول وغیرہ کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔ ٹارگیٹڈ سبسڈی کے تحت ملک کے تمام غریب گھرانوں کو دس ہزار روپے ماہانہ کی مدد دی جائے۔(3)اس وقت 100 روپے ریونیو کے مقابلے میں 200روپے کے سرکاری اخراجات ہیں جو قطعاً ناقابل قبول ہیں۔ اس لیے فوری طور پر تمام غیر ترقیاتی اخراجات پر 30فیصد کٹ لگایاجائے۔ کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد صوبائی سبجیکٹ سے متعلق تمام وزارتیں اورڈویژن ختم کیے جائیں۔ دفاعی اداروں میں غیر جنگی اخراجات میں بھی 30فیصد کمی کی جائے۔ بیورو کریسی (سول و ملٹری) عدلیہ کے ریٹائرڈ افسران کی مراعات فی الفور نصف کی جائیں، بھاری مشاہروں پر کنٹریکٹ ملازمتیں ختم کی جائیں۔نیز ان 85اداروں کارپوریشنوں کے بارے میں جوکہ مسلسل خسارے پر چل رہی ہیں۔ اور جن پر ہر سال 500ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی مشاورت سے ٹھوس اور مستقل فیصلہ کیاجائے۔ 4))ملک میں حقیقی تبدیلی اسلامی نظام بالخصوص اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے ذریعہ ہوگی۔(5)معیشت کو سود سے پاک کرنا انتہائی لازمی ہے۔ 26رمضان المبارک 1443ھ کے وفاقی شرعی عدالت کے تاریخی فیصلے کے بعد قوم حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے تمام سودی قوانین ختم کرکے متبادل قانون سازی کا عمل مکمل کرے گی۔ اس سال کے بجٹ میں Debt servicesیعنی سود کے لئے 3980 ارب روپے رکھے گئے ہیں اس میں سے 85 فیصد سود اندرون ملک کمرشل بینکوں کا ہے جو بجٹ کا 41 فیصد ہے اس لئے لازم ہے کہ حکومت اندرون ملک قرضوں پر سودکا خاتمہ کرے اور قرضوں کو ایکٹویٹی اور مضاربہ میں تبدیل کرلے۔ تمام بنکنگ و نان بنکنگ سیکٹر اورمالیاتی معاہدوں اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کو شریعت کے تقاضوں کے مطابق کیا جائے،ہاؤس بلڈنگ، زرعی و دیگر قرضوں پر سود معاف کیاجائے۔ حکومت اور سٹیٹ بنک کنونشنل بنکنگ کو بلاسود بنکنگ میں بدلنے کاروڈ میپ دے۔ ظاہر ہے کہ اللہ و رسول سے جنگ کرکے تو معیشت بحال نہیں ہوسکتی۔زکوٰۃو عشر ایک ایسا دینی فریضہ ہے جو معاشرے میں غربت کے خاتمے، یتامیٰ و بیوگان کی کفالت اورنیکی کے فروغ کا الہامی چارٹر ہے۔ اس کاپوٹینشل اتنا ہے کہ اگر 7کروڑ صاحبان نصاب سے مکمل زکوٰۃ و عشر لیا جائے تو ہر غریب گھرانے کو سالانہ اڑھائی لاکھ روپے دیئے جاسکتے ہیں۔ نظام زکوٰۃ و عشر کے صحیح نفاذ سے غربت کو مکمل طور پر ختم کیاجاسکتا ہے۔ پاکستان میں روزانہ40ارب روپے کے صدقات دئے جاتے ہیں اس لئے ہر علاقہ میں صدقات بنک قائم کئے جائیں تو غربت کے خاتمے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔• پاکستان پر آئی ایم ایف، ورلڈبنک و دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے ارجنٹینا کی طرح Debt equity swapکاراستہ نکالا جاسکتا ہے۔ یعنی قرضوں کو لوکل کرنسی میں پاکستان میں ہی انویسٹمنٹ میں تبدیل کیاجائے۔ البتہ نفع کو فارن کرنسی میں منتقل کرنے کی سہولت ہو۔•پاکستان سے لوٹی ہوئی بیرون ملک دولت کو واپس لانے کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے۔•سکوک کے اجراء کی اسکیم جاری کی جائے۔•اسی طرح بیرون ملک پاکستانیوں سے زر مبادلہ لینے کے لیے ہر شہر میں قیمتی سرکاری کمرشل اراضی کوزر مبادلہ میں ادائیگی کی شرط پر پرکشش قیمتوں پر فروخت کیاجائے۔ اس سے آئی ایم ایف کی قسط کے مطابق زرمبادلہ جمع ہوسکتا ہے۔ •اگر حکومت کی دیانت داری اور نیک نیتی پر قوم کو یقین ہو تو اندرون و بیرون ملک سے قرضہ اتار و مہم کے دوران کئی ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ •آئی ایم ایف سے نجات کے لیے جن ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ان میں مندرجہ ذیل انتہائی ضروری ہیں۔•میکرو اکنامک پالیسی کے ذریعے بزنس اور سروسز سیکٹر کی بجائے زراعت اور صنعت کو ترجیح دی جائے۔زرعی انقلاب: اس وقت ہم فوڈ آئٹمز درآمد کررہے ہیں۔ 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ خوردنی تیل، دالوں اور فوڈ آئٹمز پر 7ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ خوراک میں خود کفالت،تیز رفتار زرعی انقلاب کی ضرورت ہے۔ بنجر زمینوں کی آبادکاری، بہترین بیج کی فراہمی، کاشتکار کو سہولت اور تحقیقات وغیرہ کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار کو دوگناکرنے کے اہداف حاصل کیے جائیں۔ کپاس،گندم، دالوں، خوردنی تیل،گنا وغیرہ کی لازمی کاشت کے لیے قانون سازی کے ذریعہ زوننگ کی جائے نیز کسانوں کوفصلوں کی بہترین قیمت دی جائے۔ •تجارتی خسارہ میں کمی: اس سال تجارتی خسارہ 58فیصد اضافے کے ساتھ 43.3ارب ڈالر ہواہے۔ یعنی ہر 100ڈالر ایکسپورٹ کے مقابلے 220ڈالر کی امپورٹ ہے۔اس لیے فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FDA) میں ایکسپورٹ کا اضافہ مدنظر رکھاجائے نیز FDIفارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں 50فیصد سے زائد نفع منتقل کرنے کی اجازت نہ ہو۔ •گزشتہ مالی سال کے گیارہ مہینوں میں 30ارب کی ایکسپورٹ کے مقابلے میں 75ارب امپورٹ ہوئی ہے۔ اس لیے تجارتی خسارہ میں کمی کے لیے درآمدات پر بعض پابندیاں لازمی کی جائیں مثلاً سامان تعیش کا سمیٹکس،فوڈبیوریجز، بلڈنگ و فرنیچر آئٹمز۔ پالتو جانوروں کی خوراک،شیمپو اور نان کمرشل مہنگی گاڑیوں وغیرہ کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ •برآمدات میں اضافہ کے لیے نئے اکنامک و ٹیکس فری زونز بنائے جائیں۔