مزید خبریں

حج… بندگی کی معراج

یہ گھر اس بات کی علامت ہے کہ یہ مرکزِ رشد وہدایت ہے۔ نماز میں پانچ وقت (اسی طرف) رْخ کرنے کا حکم بھی اسی لیے ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کی مثال کے ذریعے سے ا س بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو اس گھر کے رب کو اپنا رب بنا لیتا ہے تو اللہ اس کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانا تو اللہ نے ان کو کتنا اونچا مقام دیا۔ سارے انسانوں کا امام بنا دیا۔ عیسائی، یہودی، مسلمان تینوں ان کو اپنا امام مانتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برہمن کا لفظ بھی ابراہیم سے نکلا ہے۔ ابراہیم سے اس لیے کہ ’ب رھ م‘ یہ مادہ عربی زبان میں اور عبرانی زبان میں ایک ہی لفظ کا ہے۔ ہر مذہب کی جڑ جا کر انھی تک پہنچتی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیمؑ کو ساری دْنیا کا امام بنا دیا۔
ایک عورت جس نے اللہ پر بھروسا کیا، جو یکا و تنہا تھی، جس کا کوئی سہارا نہیں تھا، اس کا ایک بیٹا جو دودھ پیتا بچہ تھا، ان کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ سیدنا ابراہیمؑ نے جب انھیں یہاں پر چھوڑا تو سیدہ ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے پلٹ کے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ آپ کو اس کا حکم اللہ نے دیا ہے؟ کہنے لگے: ہاں، اللہ نے حکم دیا ہے۔ اس پر وہ مطمئن ہو گئیں اور مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی ذات پر بھروسا کر لیا۔ سیدنا ابراہیمؑ بھی بالکل مطمئن واپس آگئے۔ یہ اللہ پر بھروسے کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ نے لق ودق صحرا میں ان کی زندگی کا سامان کر دیا، زم زم جاری کر دیا اور پھر اپنی اس بندی کی اس محبت و اطاعت کو حج کا رکن بنا کر ہمیشہ کے لیے جاری وساری کر دیا۔
خدا پر بھروسا اور ا س کی اطاعت، یہی دراصل دین کی روح ہے۔ اسی لیے نماز میں جو اطاعت کی مظہر ہے، ہم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سبق ذہن میں ہر وقت تازہ ہونا چاہیے کہ گھر سامنے موجود ہے۔ اگرچہ نگاہوں کے سامنے تو نہیں ہے لیکن تصور میںموجود رہنا چاہیے۔ یہ اتنا ضروری ہے کہ اگر قبلے کی طرف رخ نہ ہو تونماز نہیں ہوتی۔ قبلے کی طرف رخ کرنا بنیادی شرائط نماز میں سے ہے۔ حکم ہے کہ اگر قبلہ نامعلوم ہو تو آدمی اندازے سے رخ کا تعین کرے اور جب صحیح رخ معلوم ہو جائے تو بغیر کسی توقف کے فوراً اپنا رخ درست کرلے۔ جب نبیؐ کو تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ شمال کی طرف جدھر بیت المقدس تھا منہ کیے ہوئے تھے، جیسے ہی تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ نے فوراً 180 ڈگری پھیر کر مکہ کی طرف اپنا رخ کرلیا۔
قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم، پانچ وقت نماز میں رخ کرنا اور حج کے موقع پر حاجی کا اللہ کے گھر کی طرف جانا، یہ اللہ پر بھروسے، اس پر توکل، اس پر اعتماد اور حکم ملتے ہی بلا دھڑک اس کی اطاعت کرنے کا نام ہے۔ یہی سیدنا ابراہیمؑ کی محبت کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
’’اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا! مسلم ہو جا تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا ’مسلم‘ ہوگیا‘‘۔ (البقرہ: 131)