مزید خبریں

قر بانی کا حاصل

عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرامؓ نے اسی کے بارے میں نبیؐ سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے۔ (ابن ماجہ)
بے شک ہر سال مسلمانانِ عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کرکے جاں نثاری اور فدائیت کے اس بے نظیر واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال پہلے عرب کی سرزمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا… کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہوگا وہ منظر جب ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نوخیز لختِ جگر سے کہا: ’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا راے ہے؟‘‘ (الصافات: 102) اور لائق فرزند نے بے تامل کہا: ’’اباجان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ (الصافات: 102) اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور تعمیلِ حکم کے لیے اس پر تیز چھری پھیر دی جائے، اور ایک ضعیف اور رحم دل باپ نے اپنے محبوب لختِ جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے تیز چھری پھیر دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے۔
اطاعت و فرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ندا آئی: ’’اور ہم نے انھیں ندا دی کہ اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمایش تھی‘‘۔ (الصافات: 104-106) اس وقت ایک فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ایک مینڈھا پیش کیا کہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کریں، اور اللہ نے رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کر دی کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسی دن جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر اس بے نظیر قربانی کی یاد تازہ کریں۔
’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس (نوعمر بچے) کو چھڑا لیا‘‘۔ (الصافات: 107)
بڑی قربانی سے مراد قربانی کی یہی سنت ہے جس کا اہتمام ہر سال اسی دن مسلمانانِ عالم دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں اور لاکھوں مسلمان تو مکہ کی اس سرزمین پر اس سنت کو تازہ کرتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے نہ تو اس قربانی کا یکایک مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ وہ یکایک اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے بلکہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی یادگار ہے۔ حیاتِ ابراہیمؑ کو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں۔ اللہ کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت اور آسایش سے محروم ہوئے، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے محروم ہوئے، خاندانی گدی سے محروم ہوئے، وطنِ عزیز سے نکلنا پڑا۔ اللہ ہی کی خاطر آتشِ نمرود میں بے خطر کود کر آپ نے اللہ کے حضور اپنی جان نذر کر دی، اور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں لاکر ڈال دیا، اور جب یہی بچہ ذرا سنِ شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہر سہارے اور تعلق سے کٹ جائو اور مسلم حنیف بن کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو: ’’جب ان سے ان کے رب نے کہا: مسلم ہوجا تو اس نے بے تامل کہا: میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘۔ (البقرہ: 131)
اسلام کے معنی ہیں: کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کرسکتا ہے جو واقعتا اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو، جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیا ہو۔ اگر آپ کی زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے کہ آپ اللہ کے مسلم اور وفادار ہیں اور آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو آپ محض چند جانوروں کا خون بہا کر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کرسکتے، اور اس عہد میں پورے نہیں اْتر سکتے جو قربانی کرتے وقت آپ اپنے اللہ سے کرتے ہیں۔
دنیا کے مسلمان اس دن جانوروں کا خون بہا کر اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اے رب العالمین! ہم تیرے مسلم ہیں۔ تیری کامل اطاعت ہی ہمارا شیوہ ہے۔ ہم تجھ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے بزرگوار اسماعیل کی طرح تیرے حضور اپنی گردن پیش کرتے ہیں۔ پروردگار تو نے ہی قربانی کی یہ سنت جاری کر کے اسماعیل علیہ السلام کی گردن چھڑائی تھی۔ ہم جانوروں کا خون بہا کر اپنی گردن چھڑاتے ہیں مگر ہمارا سب کچھ تیرا ہی ہے، تیرا اشارہ ہوگا تو ہم تیرے دین کی خاطر اپنی گردن کٹانے اور اپنا خون بہانے سے ہرگز دریغ نہ کریں گے۔ ہم تیرے ہیں اور ہمارا سب کچھ تیرا ہے۔ ہم تیرے وفادار اور جاں نثار بندے سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیلؑ کے پیرو ہیں اور انھی کی عقیدت سے سرشار ہیں۔ قربانی کرتے وقت آپ جو دعا پڑھتے ہیں وہ دراصل وفاداری اور جاں نثاری کے انھی جذبات کا اظہار ہے:
’’میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رْخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔ خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے‘‘۔