اے دوست! خانہ کعبہ خداے عزوجل کا گھر ہے، یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کا دربار ہے۔ تم اْس کے دربارِ شاہی میں جا رہے ہو، گویا اسی کی زیارت کو جا رہے ہو۔ بے شک اس دنیا میں تمھاری آنکھ دیدارِ الٰہی کی استعداد نہیں رکھتی۔ لیکن بیت اللہ کا قصد کرنے سے، اس گھر کی زیارت کرنے سے، اْسی کے وعدے کے بموجب، تمھیں آخرت میں رب البیت کا دیدار نصیب ہوسکتا ہے۔ حج کا یہ سفر بالکل آخرت کے اس سفر کی طرح ہے جس کے بعد اس کا دیدار ہوگا۔ دیکھو! آج کا یہ سفر ضائع نہ ہو، تاکہ آخرت میں مقصود، زیارت، یعنی دیدارِ الٰہی، ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ہر گام سفرِ آخرت کو یاد رکھو، آخرت کی تیاری کرو، تب ہی مقصودِ سفر حاصل ہوگا۔
اے دوست! یاد رکھو، اس سفر کی اصل سواری شوق کی سواری ہے۔ جتنی شوق کی آگ تیز ہوگی، اتنی ہی مقصد تک رسائی یقینی ہوگی۔ اللہ سے خوب محبت کرو۔ جس دل میں اللہ سے محبت ہوگی، اس دل میں دیدارِ کعبہ کا شوق بھڑک اْٹھے گا، کہ وہ محبوب کے دیدار کا وسیلہ ہے۔ محبوب سے جس چیز کو بھی نسبت ہوجائے، محبت کرنے والے کو وہ چیز جان و دل سے محبوب ہوجاتی ہے… اس کا شہر، اس کی گلی، اس کا گھر، اس کا در۔ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے ’میرا گھر‘ کہا ہے، اگرچہ وہ اس سے پاک ہے کہ کسی گھر میں رہے۔ جب محبوبِ لامکان نے ایک مکان کو اپنا گھر بنا لیا ہے، تو کْوے یار تک پہنچنے کے لیے شوق سے بے تاب دل کی رفاقت سب سے بڑھ کر حصولِ مقصد کی ضامن ہے۔
تم اگر خانہ کعبہ کے مشتاق اس لیے ہو کہ وہ اللہ کا گھر ہے، تو صرف اسی نسبت سے اس کا سفر کرو۔ گویا اپنی نیت اور ارادہ صرف اللہ کے لیے خالص کرلو۔ خوب یاد رکھو کہ بجز خالص کے کوئی ارادہ اور کوئی عمل اس کے ہاں قبول نہیں۔ پس خاص طور پر، جس بات میں ریا ہو اور شہرت کی تلاش ہو، اس کو ترک کردو۔ اس سے بْری بات کیا ہوسکتی ہے کہ سفر تو بادشاہ سے ملاقات کے لیے ہو، اور مقصود اس کے سوا کچھ اور ہو۔ دل میں بیت اللہ اور رب البیت کا مقام پہچانو گے، اور یاد رکھو گے، تو پھر ارادہ اس سے کسی کم تر چیز کا نہ کرو گے۔
سفرِ حج بھی، ہر سفر کی طرح، ترکِ علائق سے شروع ہوتا ہے۔ گھر چھوڑتے ہو، گھر والے چھوڑتے ہو، مال و تجارت ترک کرتے ہو، وطن سے جدا ہوتے ہو، مگر اس سفر میں کامیابی کے لیے سب سے پہلے ان حقوق سے تعلق منقطع کرو جو دوسروں کے اپنے ہاتھوں میں دبا رکھے ہیں، اور ایسے سارے حقوق حق داروں کو واپس کر دو۔ یاد رکھو، ذرہ برابر ظلم بھی اگر کسی پر کیا ہے تو وہ تمھارا قرض خواہ ہے۔ وہ تمھارا گریبان پکڑ کر کہتا ہے، تم کہاں جاتے ہو، شرم نہیں آتی کہ جاتے ہو شہنشاہ کے گھر، اور اپنے گھر میں اس کے حکم کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ اس کی تعمیل کرو، ڈرتے نہیں کہ اتنے گناہوں کے ساتھ کہیں وہ تمھیں واپس نہ کردے۔ اس لیے، اگر اپنی زیارت کی قبولیت چاہتے ہو، تو خالص توبہ کرکے ہر گناہ سے تعلق توڑ لو، حقوق جو ظلم سے لیے ہیں واپس کر دو، اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں لگ جائو۔
اپنے دل کا علاقہ ماسوا اللہ سے بھی منقطع کرلو، اور جس طرح اپنے سفر کا رْخ اس کے گھر کی طرف کرلیا ہے، اپنے دل کا رْخ بھی اسی کی طرف کرلو۔ وطن سے تعلق اس طرح منقطع کرلو جیسے پھر لوٹ کر نہ آئو گے، اہل و عیال کے لیے وصیت لکھ کر جائو۔ سفر کا سامان کرتے ہو، تو اتنا خرچ ساتھ لینے کا اہتمام کرتے ہو کہ کسی جگہ کمی نہ پڑے۔ یاد رکھو کہ آخرت کا سفر اس سفر کی بہ نسبت کہیں زیادہ طویل اور کٹھن ہے، اور اس سفر کا سامان تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے علاوہ ہر مال و اسباب دغا دے گا، اور موت کے وقت پیچھے رہ جائے گا۔ اس فکر اور کوشش میں رہو کہ اعمالِ حج میں ایسی آمیزش یا نقص نہ آجائے کہ وہ موت کے بعد تمھارا ساتھ نہ دیں، اور اس سفر سے تم سفرِ آخرت کے لیے تقویٰ کا زادِ راہ زیادہ سے زیادہ جمع کرلو۔
اے دوست! اہل وعیال اور مال واسباب سے رخصت ہوکر جب سواری پر سوار ہو، تو اللہ کا شکر ادا کرو جس نے خشکی پر، پانی میں، ہوا میں، ہر قسم کی سواری کو تمھارے لیے مسخر کردیا۔ حج کی سواری پر نظر پڑے، تو اپنے جنازے کو نگاہوں کے سامنے رکھو، جس پر سوار ہوکر ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا۔ آج حج کی سواری پر سفر اس طرح کرو کہ جنازے پر سفر کرنا آسان ہو۔ کیا معلوم کہ موت، سفرِحج سے بھی زیادہ قریب ہو۔
اے دوست! احرام کے لیے چادریں خریدو، تو وہ دن یاد کرو جب تم کفن کی دو بے سلی چادروں میں لپیٹے جائو گے۔ ہوسکتا ہے کہ حج کا سفر پورا نہ ہو اور راستے ہی میں موت آجائے، مگر کفن میں لپٹ کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات تو یقینی ہے۔ جس طرح اللہ کے گھر کی زیارت روزمرہ کا لباس اْتار کر اس سے مخالف لباس پہنے بغیر نہیں ہوسکتی، اللہ کی زیارت بھی اس کے بغیر نہ ہوگی کہ دنیا کو اْتار کر اس سے مخالف لباس میں ملبوس ہوجائو۔اے دوست! شہر سے نکلتے ہو تو، اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر، ایسے سفر پر جاتے ہو جو دنیا کے اور سفروں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ سوچنا چاہیے کہ میرا مقصد کیا ہے، میں کہاں جا رہا ہوں، اور کس کی زیارت مطلوب ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اس سفر سے تمھارا مقصود اللہ تعالیٰ ہے، اسی کے گھر جارہے ہو، اسی کی پکار پر، اسی کے شوق دلانے سے، اسی کے حکم سے، سارے تعلقات ترک کرکے، اْس گھر کی طرف جا رہے ہو جس کی شان انتہائی عظیم ہے، جس کی زیارت کے وسیلے خود صاحب ِ گھر کی زیارت تمھیں نصیب ہوگی۔ مگر اْمید اپنے اعمال سے نہ رکھو، بھروسا صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر رکھو… وہ میرے ساتھ ہوگا، میری مدد کرے گا، میری دست گیری و رہنمائی کرے گا، مجھے منزلِ مراد تک پہنچائے گا… یہ کرم اس کا کیا کم ہے کہ اس سفر سے اگر تم خانۂ کعبہ نہ بھی پہنچ سکو، اور راستے ہی میں موت آجائے، تو بھی اس سے ملاقات اس حال میں ہوگی کہ تم اس کی طرف سفر میں ہو۔ پھر اس کے سارے وعدے پورے ہوں گے۔ کیا اس نے وعدہ نہیں فرمایا ہے:
’’اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسولؐ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا‘‘۔ (النساء: 100)
شہر سے نکل کر میقات تک سفر کرو، تو موت کے بعد جسم سے نکل کر میقاتِ قیامت تک کے سفر کے احوال یاد کرو۔ قبر کی تنہائی، اور عذاب، آگے کے اندیشے اور خطرات، منکر نکیر کے سوالات!
اے دوست! میقات پر لبیک کہو، تو دل خوف و اْمید سے لرز جائے۔ یہ ربِ کائنات کی پکار ہے جس پر تم کہہ رہے ہو کہ میں حاضر ہوں۔ کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ لا لبیک ولاسعدیک، نہ تم خدمت کے لیے حاضر ہو، نہ ہمارے لیے مستعد۔ ابوسلیمان دارانیؒ کہتے ہیں، میں نے سنا ہے کہ جو شخص ناجائز مال رکھتے ہوئے حج کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’نہ تیرا لبیک معتبر ہے نہ سعدیک، جب تک تو وہ چیز نہ واپس کردے جو دوسروں کی تیرے قبضے میں ہے‘‘۔ مگر انتہائی خوف کے ساتھ، پوری اْمید رکھو کہ وہ جواب قبول فرمائے گا۔ اپنے عمل اور طاقت پر نہ جائو، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر تکیہ رکھو۔
اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہو تو وہ وقت بھی یاد رکھو جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اْٹھ کر میدانِ قیامت میں جمع ہوجائیں گے۔ سوچو کہ میں کس صف میں جائوںگا اور میرا نامۂ اعمال کس ہاتھ میں دیا جائے گا؟ مقربین میں؟ اصحاب الیمین میں؟ یا اصحاب الشمال میں؟
اے دوست! جو حرم میں داخل ہوجاتا ہے، مامون ہوجاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور آگ کو یاد کرو، اور اس سے پوری اْمید رکھو کہ وہ تمھیں اپنے غضب اور اپنی آگ سے بھی مامون رکھے گا۔ یہ خلش بھی دل میں رہے کہ میں اس قْرب کا اہل نہ ہوا تو کہیں مستحقِ غضب نہ ٹھہروں۔ مگر رحمن کے گھر تک پہنچ جانے کے بعد، اس کا مہمان بن جانے کے بعد، اس کے جوار میں بسیرا کرلینے کے بعد، چاہیے کہ ہر جگہ اْمید، خوف پر غالب رہے۔ اس کا کرم عام ہے، اور خانہ کعبہ کے شرف و عظمت کی رعایت سے آنے والے کا اکرام ہوتا ہے، اور پناہ مانگنے والے کی حرمت تلف نہیں کی جاتی۔
اے دوست! ایسا نہ ہو کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑے، اور نگاہِ دل عظمتِ کعبہ پر نہ ہو۔ جو ’البیت‘ کو دیکھتا ہے، وہ یہ جانے کہ گویا ’رب البیت‘ کو دیکھتا ہے۔ اس کی تجلی سے ہوش و حواش ٹوٹ پھوٹ جائیں تو بھی کم ہے۔ شکر کرے کہ اس نے اس مقام تک پہنچایا، اس وقت کو یاد کرے جب چہرے اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَہ کی نعمت سے شادکام ہوں گے، اور اْمید رکھے کہ آج جس طرح اس کا گھر سامنے ہے، کل اسی طرح وہ خود نگاہوں میں ہوگا۔
اے دوست! طواف کا قصد کرو، تو دل ذوق و شوق، خوف و رجا، محبت و تعظیم سے بھرا ہوا ہو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ طواف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جسم بیت اللہ کا طواف کرے۔ نہیں، طواف کا برتر و اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ دل رب البیت کا طواف کرے، یاد کا مرکز وہی بن جائے۔ خانہ کعبہ عالمِ ظاہر میں دربارِ الٰہی کا نمونہ ہے۔ ان فرشتوں کی طرح طواف کرو جو عرش کا طواف کرتے ہیں۔