مزید خبریں

مسلم ممالک معاشی طور پر غلام ہیںِ،تعلیمی ڈھانچہ مغرب زدہ ہے،حکران غفلت کا شکار ہیں

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) مسلم ممالک معاشی طور پر غلام ہیں‘ تعلیمی ڈھانچہ مغرب زدہ ہے ‘ حکمران غفلت کا شکار ہیں‘ ہم اپنی تہذیب سے آگاہ نہیں‘ قبائلی رسومات کو دین کا حصہ سمجھ لیا‘ دولت کی چکا چوند نے آنکھوں کو خیرہ کر رکھا ہے‘ مغربی تہذیب کے خلاف مزاحمت موجود ہے‘ اسلامی تحریکوں نے ایران اور ترکی میں اسلامی اقدار پر پابندی کے خلاف مشکل حالات میں جدوجہد کی ہے۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ امور خارجہ کے ڈائریکٹر آصف لقمان قاضی، ممتاز محقق پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی اور معروف دانشور، کالم نگار اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کی مزاحمت کیوں موجود نہیں؟‘‘ آصف لقمان قاضی نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کی مزاحمت موجود نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں دو متوازی لہریں چل رہی ہیں‘ ایک مغرب زدگی کی لہر ہے تو دوسری اسلام کی طرف رجوع کرنے کی ہے ‘ مسلمانوں کی بڑی تعداد اپنا تشخص اور ثقافت ترک کر کے مغربی تہذیب کی طرف مائل ہو رہی ہے اور اسے اختیار کرنا ترقی کی علامت سمجھتی ہے تاہم دوسری جانب ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو لبرل اور سیکولر ماحول سے تائب ہو کر اسلامی تہذیب و ثقافت کی جانب آ رہی ہے اور اس میں سکون اور اطمینان محسوس کرتی ہے‘ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر موجود اسلامی تحریکوں کے علاوہ مقامی سطح پر بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد علمی و دینی مراکز اور مدارس وغیرہ سے منسلک ہے‘ یہ مقامی اور نچلی سطح کے روابط مسلم سماج میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور مغربی تہذیب کی مزاحمت میں غیر محسوس انداز میں اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اختر عزمی نے کہا کہ مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کے مقابل مزاحمت موجود ہے تاہم بظاہر یہ مزاحمت دکھائی نہیں دیتی کیونکہ غالب تہذیب اپنے وسائل و اختیارات کے ذریعے اپنا غلبہ ظاہر کرتی ہے‘ مسلم ممالک چونکہ معاشی لحاظ سے بھی غلام ہیں اور ان کا تعلیمی ڈھانچہ بھی مغربی استعمار کے تابع ہے اس لیے ان ممالک کے حکمران مغرب کی اطاعت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر مسلم معاشروں میں مغرب کی اطاعت سے انکار کے جذبات کی بھی کمی نہیں اور مسلمان عوام اپنے دینی اقدار کے تحفظ اور انہیں اختیار کرنے کی جانب راغب دکھائی دیتے ہیں‘ عوامی سطح پر لوگوں میں حج و عمرہ اور اعتکاف سے دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ بڑی داڑھی رکھنے اور پانی بیٹھ کر پینے جیسی اسلام سے وابستہ روایات بھی فروغ پا رہی ہیں‘ دوسری جانب علمی اور فکری سطح پر مغربی تہذیب کی مزاحمت کی تحریکیں بھی خاصی موثر اور جاندار ہیں اور سوشلزم کی طرح مغربی تہذیب کو بھی اس کے انجام تک پہنچانے کا جذبہ مسلم نوجوانوں میں موجزن ہے۔سجاد میر نے کہا کہ مسلم دنیا دراصل مسلم تہذیب سے متعلق واضح تصور نہیں رکھتی‘ قبائلی رسوم کو اسلام سے وابستہ کر دیا گیا ہے‘ مغرب کی پیروی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بینکوں کی عمارات، کلیسا سے بلند و بالا دکھائی دیتی ہیں‘ دولت کی چکا چوند نے آنکھوں کو خیرہ کر رکھا ہے مگر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، علامہ اقبالؒ نے ایک صدی قبل بتایا تھا کہ نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی۔ کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی۔ اتاترک نے ترکی اور محمد رضا شاہ نے ایران میں اگرچہ اذان، قرآن، پردے اور دیگر مذہبی اقدار پر پابندیاں عاید کر کے جدیدیت کے نام پر لادینیت کو اپنے معاشروں میں جبراً مسلط کیا مگر اسلامی تحریکوں نے شدید مشکل حالات میں بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ان کے اثرات بھی برآمد ہو رہے ہیں، جوں جوں یہ تحریکیں آگے بڑھیں گی مغربی تہذیب کے مقابل مسلم دنیا کی مزاحمت بھی فروغ پائے گی۔