مزید خبریں

دعوت، تربیت اور عمل کے لیے قر آن حکیم کو مرکزی حیثیت دیں تو اسلامی تحریک کی کامیابی یقینی ہے

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) اسلامی تحریکو ں کا مستقبل بھی روشن ہے‘ دعوت، تربیت اور عمل کے لیے قر آن حکیم کو مرکزی حیثیت دیں تو اسلامی تحریک کی کامیابی یقینی ہے‘ نفاذ شریعت کے لیے علما کرام تحریک ختم نبوت کی طرز پر پرامن جدوجہد کریں‘ صدر طیب اردوان نے ترک سیکولر آئین کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی تشخص کو اجاگر اور اقامت دین کے لیے کام کیا‘ مسلم ممالک میں مغربی جمہوری نظام، بغاوت، قتال اور خروج نے اسلامی تحریکوں کو شدیدنقصان پہنچایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز اور تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر مولانا ڈاکٹر شجاع الدین شیخ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’اسلامی تحریکوں کا مستقبل کیا ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ دنیا میں اسلامی تحریکیوں کا مستقبل روشن ہے اس کے برعکس پوری دنیا میں انسانوںکو انسانوںکا غلام بنانے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم جیسے نظام مسلط کیے گئے جو بلا آخر ناکام ہو ئے اسی طرح مغربی دجالی قوتوں نے سرکاری سرمایہ دارانہ نظام کو بھی مرحلہ وار رائج کیا جو دنیا میں بے نقاب اور ناکام ہو رہا ہے‘ اسلام دین فطرت ہے اور اسلامی تحریکیں قرآن وسنت کی بنیاد پر ہی فلاح و بہبود کے نظام کی کوشش کر رہی ہیں‘ بلا آخر باطل کو جھکنا اور ٹوٹنا ہے وقت کو بدلنا ہے‘ ہر صورت اسلامی تحریکیوں کو غالب آنا ہے‘ اسلامی تحریکوںکے لیے مستقبل میں چیلنجز اور راستے میں رکاؤٹیں ہیں‘ اس ضمن میں باطل کی جانب سے اسلامی تحریکوں کے راستے میں بارودی سرنگیں اور کانٹے بچھائے جا رہے ہیں‘ اس کے باوجود مستقبل میں اسلامی تحریکوں کے لیے غلبے کے امکانات بہت روشن ہیں‘ اسلامی تحریکیں ہی پوری دنیا کو امن و استحکام دے سکتی ہیں کیونکہ اسلام ایک بنیاد مہیا کرتا ہے جس سے انسانوںکے ذہن آپس میں جڑتے ہیں اور انہیں دلی اطمینان ملتا ہے‘ دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں ایک بہت بڑی آزمائش سے دو چار ہیں لیکن ہمیشہ آزمائشوں سے ہی گزر کر اور کربلا جیسے معرکوں کے بعد ہی کامیابی ملتی ہے اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو اسلامی تحریکوں کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلامی تحریکوں اور اسلامی تنظیموں میں کچھ بنیادی فرق ہوتا ہے‘ اس وقت اسلام کے نام پر دنیا میں کوئی بہت بڑی تحریک نہیں چل رہی اس کے برعکس عالمی سطح پر مختلف ممالک میں اسلامی تنظیمیں ضرور موجود ہیں ‘پاکستان میں بھی کچھ اسلامی تنظیمیں ہیں‘ اسی طرح ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، تیونس سمیت دیگر ممالک میں بھی یہ تنظیمیں موجود ہیں بالعموم ان اسلامی تنظیموں کا کردار اپنے اپنے ممالک میں پریشر گروپ کے حوالے سے بہت اچھا تصور کیا جاتا ہے مگر میں سمجھتا ہوںترکی کی اسلامی تنظیم کا ماڈل سب سے زیادہ کامیاب ہے‘ ترکی کی اسلامی تنظیم نے سیکولر آئین میں رہتے ہوئے اسلامی کام کا آغاز کیا اور لفظ سیکولر ازم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ سیکولر آئین میں رہتے ہوئے بھی ہر طرح کے شرعی کام کیے جا سکتے ہیں کیونکہ سیکولر آئین میں رہتے ہوئے جب شریعت سے متصادم کام کیے جا سکتے ہیں تو پھر سیکولر آئین میں رہتے ہوئے اسلامی کام بھی کیے جاسکتے ہیں‘ انہوں نے عوامی خدمت کے جذبے کو لے کر استنبول میں زبردست کام کیا‘ ترک صدر طیب اردوان نے اسلامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کے دروازوں تک سہولیات پہنچائیں‘ طیب اردوان کے اس کام سے ترکی میں اس کا بہت اثر پڑا اور ان کے اقدامات سے ترکی میں اسلامی تنظیمیں مضبوط ہوئیں‘ملا ئیشیا اور انڈونیشیا میں بھی اسلامی تنظیموں نے بہت محنت کی اور تعلیم اور عوامی فلاحی منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھی جس سے وہاںکی اسلامی تنظیمیں مضبوط ہوئیں یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اسلامی جذبہ بہت زیادہ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے ‘ اگرچہ انتخابات میں اسلامی تنظیموں کو دنیا میں کہیں بھی بہت بڑی کامیابی تو حاصل نہیں ہو ئی مگر جو بھی تنظیم برسر اقتدار آتی ہے‘ وہ اسلامی تنظیموں کے دبائو میں ضرور رہتی ہے‘ پاکستان میں بھی اس وقت بہت سی اسلامی تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ ان میں جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے مگر ان کی بھی پارلیمانی سطح پر رفتہ رفتہ نشستیں کم ہو رہی ہیں‘جبکہ جمعیت علما اسلام بھی پارلیمانی سیاست پر کام کرتی ہے ان کا بھی خیبر پختونخوا میں ووٹ بینک کم ہوا ہے‘ تاہم بلوچستان میں ان کا ووٹ بینک برقرار ہے اس تناظر میں اسلامی تنظیموں کی پارلیمانی حیثیت تو شاید کم ہوئی ہے لیکن اسلامی تنظیموںکا دباؤ بہرحال حکمران جماعت پر رہتا ہے‘ ایک لحاظ سے اسلامی تنظیموں کے لیے عالمی سطح پر یہ خوش آئندہ بات ہے۔ ڈاکٹر شجاع الدین شیخ نے کہا کہ نظام خلافت احیا کی کوشش، غلبہ دین اور اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل تحریکوں کو ہی اسلامی تحریکیں تصور کیا جاتا ہے‘ آج جو شخص بھی اخلا ص کے ساتھ غلبہ دین اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے محنت کر رہا ہے اس کا اجر اللہ سبحان تعالیٰ کے ہاںمحفوظ ہے‘ البتہ معروضی حالات کے تناظر میں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ظلم کے خاتمے اور عدل کے نظام کے لیے محنت کی یقیناً ضرورت ہے اور یہ محنت اسلامی تحریکوں کی صورت میں انفراد ی و اجتماعی سطح پر کی جا رہی ہے‘ان تحریکوں میں جس پہلو پر بہت زیا دہ توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہے کہ ایمان محنت یعنی شعوری حقیقی ایمان کی محنت جو بندے کے دل میں جا گزیں ہو اور بندہ باطنی بصیرت کی روشنی میں معاملات کو دیکھے‘ جیسے جنگ بدر میں 313 نہتے ہیں اور دوسری جانب ایک ہزار کفار کا لشکر جو ہر جنگی سامان سے لیس ہے اس معرکے میں ایمان نے فتح حاصل کی اور مادیت کو شکست ہوئی‘ آج یہ عنصر بہت سی تحریکوں میں مفقود نظر آتا ہے تاہم قرآن فہمی کا شوق بڑھا ہے‘ یہ ایک مثبت پہلو ہے ‘ اسلامی تحریکیں اپنی دعوت، تربیت، تزکیے اور عمل کے لیے قرآن حکیم کو مرکزی حیثیت دیں تو ان شاء اللہ اسلامی تحریکوں کا مستقبل روشن ہوگا‘ اسلامی تحریکیں اپنے معاملات کو رسول اللہ کی سیرت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں‘ اکثر و بیشتر مسلم معاشروں میں جو تحریکیں چل رہی ہیں‘ ان میں کئی مرتبہ مغرب سے درآمد جمہوریت یا جمہوری نظام کو آئیڈیل سمجھنے کی کوشش کی گئی جس کے نتائج ہمارے سامنے اس طرح آئے کہ اسلامی تحریکوںکے افراد انتخابی سیاست کی دلدل میں پھنس کر رہ گئے اور انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی سکیولر افراد سے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے‘ حد تو یہ ہوئی کہ کسی ایک شہر میں ایک پارٹی سے اتحاد ہوتا ہے اور اس ہی ملک کے دوسرے شہر میں اس پارٹی کے مدمقابل اسلامی تحریک کھڑی نظر آتی ہے‘ اسلامی تحریکوں کو جب اس طرح کے مسائل پیش آتے ہیں تو وہ کمزور پڑ جاتی ہیں ‘ اللہ کے رسولؐ کے کام کا طریقہ انقلابی تھا‘ آپؐ نے ایک منظم جماعت کو تیار کیا‘ اسلامی تحریک کو اللہ والا اور آخرت کا طلب گار بنایا‘ پھر انہیں میدان میں اتارا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کے ساتھ شامل حال رہی‘ مسلم دنیا میں اسلامی تحریکو ں میں اس وقت3 یا 4 ایسے طریقہ کار رائج ہوگئے ہیں جن سے اسلامی تحریکیوںکو ناتلا فی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ڈاکٹر شجاع الدین شیخ نے کہا کہ ایک جانب تو مسلح بغاوت یا قتال کا معاملہ ہے جبکہ قتال وہاں کارگر ہے جہاں کفار یا مشرکین سے سامنا ہو‘ دوسرا معاملہ مسلم معاشروں میں خروج کا ہے ‘یہ بھی ایک تفصیل طلب معاملہ ہے‘ مسلم حکمرانوں کے خلا ف آواز حق بلند کرنے کی فقہ نے بڑی کڑی شرائط بیان کی ہیں‘ فی زمانہ معروضی حالات میں یہ بھی موضوع بحث نہیں ہے‘ تیسری بات اسلامی تحریکوں کی یہ ہے کہ بس دعوت کا کام جاری رہے اور غلبہ و اقامت دین کی تحریک پائے تکمیل تک پہنچ جائے ‘ تو یہ بھی اس طرح ممکن نہیں ہے‘ اللہ کے رسول ؐسے بڑھ کر کوئی داعی نہیں ہے ‘حضور اکرم ؐنے بھی بدر کے میدان میں کھڑے ہوکر تلوار اُٹھائی جبکہ اسلامی تحریکوں میں ایک طریقہ کار جو رائج ہوگیا ہے وہ انتخابی سیاست کا بھی ہے‘ الجزائر اور مصر میں بھی ہم دیکھ چکے ہیںکہ انتخابی سیاست کے راستے سے آنے والی پارٹیوں کو کس طرح وقت کی مقتدر پارٹیوں نے ہٹایا ہے۔ مولانا ڈاکٹر شجاع الدین شیخ نے کہا کہ اسلامی تحریکیو ں کے لیے جو راستہ بچتا ہے نہ وہ بلٹ کا ہے اور نہ ہی بیلٹ کا یعنی نہ ہتھیار اٹھانے کا معاملہ ہے اور نہ ہی انتخابات کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو راستہ اسلامی تحریکو ں کے لیے نظر آتا ہے‘ وہ ایسا راستہ ہے جس میں مسلم معاشروں میں رہتے ہوئے پر امن منظم محنت اور دعوت کا کام کیا جائے جس سے معاشرے میں نہ تو کوئی توڑ پھوڑ ہو اور نہ ہی اپنے لوگوں کے اموال کو نقصان پہنچایا جائے بلکہ بس شریعت کے نفاذ کی بالادستی کو قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے‘ اس سے قبل بھی پاکستان میں1974ء کی اسلامی تحریک کے نتیجے میں ختم نبوت ؐ کے حوالے سے قادیانیوںکو کافر قرار دلوایا گیا ہے‘ الحمد اللہ ہم سمجھتے ہیں کہ منکرات جس پر تمام مکاتب فکر کے علما کرام متفق ہوجائیںجہاں مقصد کرسی اقتدار نہ ہو یعنی مقصد شریعت کی بلادستی ہو تو یہ قوم آج بھی جان دینے کے لیے تیار ہے‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی تحریکوں کا مستقبل بھی روشن ہے‘ اقامت دین اور غلبہ دین کی درست سمت میں جدوجہد بھی جاری رکھی جا سکتی ہے۔