مزید خبریں

ہاشمی کین کے مزدوروں کی داد رسی کب ہوگی

سپریم کورٹ آف پاکستان سے تمام واجبات کی بحالی کے باوجود 10-05-2010 آرڈر کے ہاشمی کین کمپنی کے مالکان نے کچھ عرصہ کے لیے عدالت کو دھوکا دہی دینے کے لیے نوکری پر بحال کیا اور دوبارہ 18-01-2011 کو غیر قانونی نوکری سے نکال دیا۔ سپریم کورٹ سے بحال کسی بھی ورکر کو ان کے واجبات ادا نہیں کیے جو ورکر انتقال کرگئے ان کی بیوائیں آج تک اپنے شوہروں کے واجبات سے محروم ہیں۔ ہاشمی کین کمپنی نے 26-11-1999 کو 381 ورکروں کو غیر قانونی نوکری سے نکال دیا۔ لیبر کورٹ میں کمپنی انتظامیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم تمام کمپنی بند کررہے ہیں مگر کمپنی مالکان نے 150 ورکروں کے ساتھ فیکٹری چلائے رکھی بند نہیں کی۔ اُس وقت کے لیبر منسٹر دیوان یوسف نے لیبر ڈائریکٹر سندھ اسرار صاحب
کے ذریعے کمپنی کی انکوائری اور انسپکشن کروائی۔ اس رپورٹ میں یہ تحریر کیا گیا کہ ہاشمی کین کمپنی کی انتظامیہ نے لیبر کورٹ کے آرڈر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ فیکٹری بند نہیں ہوئی، کورٹ کو دھوکا دیا گیا۔ ہاشمی کین کمپنی کے مالک ظہیر ملک منور ملک نے مزدوروں کا پراوڈنٹ فنڈ ایک کروڑ 16 لاکھ نکال کر فیکٹری خرید لی۔ جب مزدوروں اور یونین نے احتجاج کیا تو کمپنی نے ایگریمنٹ لکھ کر دیا کہ پراوڈنٹ فنڈ پر ہم 16 فیصد کے حساب سے منافع ورکروں کو دیں گے۔ یہ کیس SECP میں زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کی تشریح کے لیے ہمارا کیس لیبر کورٹ سندھ میں چل رہا ہے مگر 12 سال ہونے کو ہیں فیصلہ نہیں کیا جارہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمپنی کا مالک ظہیر ملک تمام ورکروں اور بیوائوں کے واجبات پہلے لیبر کورٹ میں جمع کرواتا پھر کیس
چلاتا مگر یہ ہمارا پیارا پاکستان ہے۔ امیر آدمی کے لیے تو عدالتیں رات 12 بجے بھی کھل جاتی ہیں مگر مزدور کے لیے کیوں نہیں۔ لیبر لاء کے مطابق 6 دن میں فیصلہ ہونا چاہیے مگر یہاں تو ایک کیس بھی 12 سال میں مکمل نہیں ہوا۔ اگلا مرحلہ لیبر ٹریبونل، سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہے وہاں جانے کیا ہوگا۔