مزید خبریں

سابقہ حکومت نے زرعی آلات پر 17 فیصد ٹیکس لگاکر زراعت کو تباہ کیا،جماعت اسلامی

لاہور( نمائندہ جسارت) موجودہ حکومت جو پچھلے 30سال سے وقفے وقفے سے اقتدار میں ہے ،مگر جب بھی موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت برسراقتدار آئی تو ہر شعبہ زندگی میں ان کی نالائقی اور نااہلی اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ باقی شعبہ ہائے زندگی کی طرح زراعت بھی انکی عدم توجہی کا شکار رہی۔ تبدیلی سرکار کے دور سے شروع ہونے والا مہنگائی کا سیلاب اتحادی حکومت کے دور میں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا،زرعی مداخل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ زراعت جےسا انتہائی اہم شعبہ جو پہلے بھی نظر انداز ہوتا رہا اب بھی حکومتی ترجےحات مےں سوائے دعووں کے کہےں نظر نہےں آ رہا۔سابقہ ضمنی بجٹ میں تبدےلی حکومت نے زرعی بیجوں ،آلات اور جانوروں کی خوراک پر 17فیصد GST کا نفاذ کر کے تباہ شدہ زراعت کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ اتحادی اپوزیشن میں تھے تو اس کی مخالفت کر رہے تھے مگر جب سے حکومت میں ہیں اس ٹےکس کے خاتمے کےلئے کوئی تحرک نظر نہ آرہا ہے ۔ ووٹ کے حصول کےلئے ہر حکومت کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بڑے بلندو بانگ دعوے کرتی ہے مگراقتدار حاصل کرنے کے بعد پھر کسانوں کو بھول جاتی ہے۔تبدےلی سرکار اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں سوائے لفظی دعووں کے زرعی شعبہ کو کوئی ریلیف نہ دے سکی ہے ۔ ملکی آبادی کا 67فےصد حصہ بالواسطہ تقرےباََ14کروڑ آبادی / افراد زرعی شعبہ سے وابستہ ہےں اور ملکی مجموعی قومی آمدن کا 24فےصد شعبہ زراعت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت زراعت سے وابستہ افراد کورےلےف دےنے مےں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ جس سے کسان برادری مےں شدےد اضطراب اور بے چےنی پائی جاتی ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مزدوروں کو درپیش مسائل بڑھتی مہنگائی میں بہت کم معاوضہ جات، لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے پر سخت تشویش کااظہار کرتاہے۔عالمی بنک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مزدوروں کی تعداد 7کروڑ 18لاکھ 9ہزار ہے۔ ان میں 38فیصد،زراعت ، جنگلات ،ماہی گیری سے وابستہ ہیں ان کی ماہانہ آمدن 9ہزار سے بھی کم ہے ۔ مختلف شعبوں میں ایک کروڑخواتین مزدور ی کرتی ہیں ۔ جنہیں ماہانہ 12ہزار روپے سے کم تنخواہ ملتی ہے۔ انڈسٹریز اور دیگر شعبے کے مزدوروں کی تنخواہ 19ہزار ( اوسط) ماہانہ ہے۔ اس سے مزدوروں کی حالت زار کااندازہ لگایا جاسکتاہے۔ پاکستان میں قانون کے مطابق کم ازکم اجرت 25ہزار روپے ہے جو کہ موجودہ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا۔ دیہاڑی دار چھ کروڑ مزدوروں پر لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین کااطلاق نہیں ہوتا جبکہ انڈسٹریر کے مزدوروں کی اکثریت بھی لیبر اور سماجی بہبود کے قوانین کے حقوق و مراعات سے محروم ہے۔ اس پر ظلم کی بدترین صورت یہ مسلط کردی گئی ہے کہ مستقل ملازمت دینے کی بجائے ٹھیکیداری نظام جوکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق خلاف قانون ہے اپنایا ہواہے۔ ٹریڈ یونینز کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ۔ یونین کی پاداش میں فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ کم ازکم اجرت موجودہ مہنگائی کے تناسب سے پچاس ہزار روپے ماہانہ کی جائے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں میں مہنگائی کے مطابق اضافہ اور بر وقت ادائیگی کااہتمام کیاجائے۔ ( بوڑھے پنشنروں کے ساتھ موجودہ ظالمانہ رویہ ختم کیاجائے۔ )ٹھیکیداری نظام جوکہ استحصال کی بدترین صورت ہے اورمزدوروں کو لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین سے محروم رکھنے کی بھونڈی کوشش ہے،اسے فی الفور ختم کیاجائے۔صحت مند ٹریڈ یونین کو فروغ دیاجائے اور ٹریڈ یونین کی پاداش میں فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنے کے رجحانات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے۔