مزید خبریں

انتخابات جب بھی ہونگے پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریگی

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) عام انتخابات جب بھی ہوں گے‘ پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی ‘ سیاسی مستقبل کا فیصلہ عمران خان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے ہوگا‘ مظلوم بن کر حکومت کے خلاف چور ڈاکو والا بیانیہ استعمال کریں گے‘ تحریک انصاف جلد تتر بتر ہو جائے گی‘ خیبر پختونخوا عمران خان کے ہاتھ میںرہے گا پنجاب نکل جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب، معروف صحافیوں و تجزیہ نگاروں افتخار احمد، آصف محمود، اظہر صدیق، حبیب اکرام، ڈاکٹر عرفان احمد بیگ اور تحریک انصاف کے رہنما محمد اقبال خان آفریدی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟‘‘ آصف محمود کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جو کرنا ہے‘ اپنی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے خود کرنا ہے‘ اب انہیں اپنی پیاس بجھانے کے لیے خود ہی کنواں کھودنا ہے‘ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے الگ کیے جانے سے کسی کی سیاست ختم نہیں ہو جاتی‘ اگر ان میں سیاسی بصیرت موجود ہو تو‘ نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ اقتدار سے الگ کیے گئے لیکن ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کے ایک جملے نے انہیں کھڑا کر دیا‘ بھٹو صاحب کے ساتھ کیا نہیں ہوا لیکن اس میں کیا کلام ہے کہ سیاست کی دنیا میں بھٹو زندہ ہے کا نعرہ مبالغہ نہیں، ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس کا اعتراف خود عمران خان کر رہے ہیں‘ مظلومیت کی ایک طاقت ہوتی ہے اور یہ مظلومیت محض ایک تاثر ہو تب بھی یہ طاقت غیر معمولی ہوتی ہے‘ پھر یہ بھی اہم ہے کہ کیا محض احتجاجی سیاست کسی کو سرخرو کر سکتی ہے؟3 سال کے اقتدار کے بعد تحریک انصاف کے پاس احتجاج، شعلہ نوائی اور لہجوں کے آزار کے سوا کیا ہے؟افتخار احمد کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں تحریک انصاف جلد تتر بتر ہو جائے گی اور عام انتخابات میں 30 سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی‘ اس مرتبہ عام انتخابات کی صورت میں تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ صرف اور صرف نظریاتی کارکنوں کو الیکشن لڑنے کے ٹکٹ دے گی، الیکٹ ایبلز کو نہیں‘ ایسے میں عوام اور پارٹی کے حامی اگر کسی ابہام کا شکار ہوئے تو تحریک انصاف کو انتخابات میں شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے‘ وہ شاید تحلیل شدہ قومی اسمبلی کی نشستیں بھی برقرار نہ رکھ سکیں‘ ایسے میں پنجاب ان کے ہاتھ سے گیا ہی گیا‘ صرف بلند بانگ دعوے سیاست کی بنیاد نہیں بن سکتے اور نہ ہی سیاسی جماعت کی کامیابی کی ضمانت دے سکتے ہیں‘ غیر ملکی سازش اور مذہبی کارڈ کا استعمال کر کے عمران خان کو انتخابات میں بڑی کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہیے‘ اب عمران خان مزید جارحانہ رویہ اپنا سکتے ہیں‘ ابتدائی طور پر ان کو یقیناً تھوڑا بہت دھچکا لگے گا اگلے انتخابات میں جانے کے لیے وہ جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف چور ڈاکو والا بیانیہ استعمال کریں گے‘ عمران خان کے مذہب اور بین الاقوامی سازش سے متعلق بیانیے کو خیبر پختونخوا میں کافی پذیرائی حاصل ہوگی، جس سے وہ آئندہ عام انتخابات میں بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ عرفان احمد بیگ نے کہاکہ اقتدار ختم ہونے کے بعد عمران خان ایک بالکل مختلف شخصیت کے ساتھ ابھرے ہیں‘ اقتدار سے علیحدگی کے بعد عمران خان ایک طوفان کی طرح اٹھے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ماضی سے بہت اچھی کارگردگی دکھائیں گے۔احمد بلال محبوب نیکہا کہ ابتدائی طور پر عمران خان ضرور جلسے جلوس اور احتجاجی سیاست کو استعمال کریں گے جو محدود عرصے کے لیے ہوگی تاہم عمران خان جلد ہی اپنے ان جذبات پر قابو پا لیں گے اور پھر انتخابات کی تیاری میں لگ جائیں گے، اس کے علاوہ ان کے پاس دوسرا آپشن نہیں ہے‘ انتخابی مہم کے دوران عمران خان تلخی کا مظاہرہ کریں گے ‘ مخالفین اور ریاستی اداروں پر الزامات کی بھرمار کریں گے‘ عمران خان ہمیشہ سے پاپولزم کو اپنی سیاست کے بنیادی جزو کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی وہ اسی طریقے کو استعمال کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اظہر صدیق نے کہا کہ عمران خان کے ہٹائے جانے کو قوم قبول نہیں کرے گی‘ سخت احتجاجی تحریک کے بعد حکومت جلد انتخابات کرانے پر مجبور ہوجائے گی جس میں عمران خان بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اب بھی ساری سیاسی جماعتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے‘ عمران خان کا مستقبل روشن ہے کیونکہ تحریک انصاف نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور قومی مفادات کے لیے اقتدار کو ٹھکرایا ہے‘ اب ہم عوام کی عدالت میں جا رہے ہیں اور وہاں کامیاب ہوںگے‘ عمران خان کے جلسوں اور مظاہروں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تحریک انصاف آج بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی ایک متحرک سیاسی قوت ہے اور انتخابات جب بھی ہوں گے‘ عمران خان کے حصے میں بڑی کامیابی آئے گی‘ عمران خان جو جلسے، مظاہرے یا مارچ کرتے ہیں اس کے لیے ان کے رہنمائوں، اراکین اسمبلی کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ لوگ خود ہی سٹرکوں پر نکلتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی عوام میں سب سے مقبول جماعت ہے۔