مزید خبریں

صدقے کا مفہوم

صدقہ کسی انسان اور کسی مسلمان کی حاجت کو پورا کرنے کا نام ہے، چاہے وہ مال کی شکل میں ہو یا کسی بھی طرح کی اعانت کی صورت میں۔ جب کوئی شخص اپنا مال تعلیم و تبلیغ میں خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ کرتا ہے۔ جس طرح بھوکے کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے، بے لباس کو لباس دینے میں صرف کرنا صدقہ ہے، اسی طرح انسانی ہدایت اور دعوت کی مد میں توسیع و اشاعت لٹریچر کے لیے صرف کرنا بھی صدقہ ہے۔ ہدایت انسان کی ضرورت ہے، بلکہ تمام ضروریات سے بڑی ضرورت ہے۔ انسان ہدایت سے محروم ہو تو اس کی آخرت برباد ہوتی ہے جو دائمی زندگی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاے علیہم السلام نے تکلیفیں برداشت کیں، مصیبتیں جھیلیں، دعوت و تبلیغ اور جہاد میں زندگیاں صرف کردیں، انسانوں پر سب سے زیادہ رحمت ان کے ذریعے ہوئی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو تمام جہانوں کے لیے اپنی رحمت قرار دیا۔ اسلام کے غلبے نے بدامنی کی جگہ امن، بھوک وافلاس کی جگہ مال و دولت کی فراوانی اور ذہنی افلاس کی جگہ علمی بلندی عطا کی۔ دس بیس بھوکوں کوکھانا کھلانے کا اتنا فائدہ نہیں جتنا چند گمراہ لوگوں کو ہدایت دینے سے ہے۔ نبیؐ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: ’’تیرے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے سرخ اْونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔ (بخاری)
نبیؐ نے فرمایا: جب آدمی فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین کام جاری رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ (مسلم) لٹریچر میں مال خرچ کرنا، مالی صدقۂ جاریہ بھی ہے اور علمی صدقۂ جاریہ بھی۔ اس لیے دوہرے اجرکا موجب ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: مومن کا ایسا عمل اور نیکیاں جو اس کی موت کے بعد اسے پہنچتی ہیں، یہ ہیں: علم جس کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد، قرآن جو وراثت میں چھوڑا، مسجد جسے تعمیر کیا تھا، یا گھر جو مسافروں کے لیے تعمیر کیا تھا، یا نہر چلا دی تھی، یا صدقہ جس کے لیے زندگی میں صحت کی حالت میں مال نکالا تھا۔ یہ چیزیں اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتی ہیں۔ (ابن ماجہ) گویا نبیؐ نے مسلمان کی ہر حاجت پورا کرنے اور ایسا کام کرنے جس سے انسانوں اور مسلمانوں کو نفع ہو، صدقہ قرار دیا ہے۔
سیدنا ابوذرؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے کچھ اصحاب نے نبیؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ! مال دار لوگ سارا اجر لے گئے۔ وہ نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اور اپنے زائد مال کو صدقہ کرتے ہیں (اس طرح ان کا کام بڑھ گیا)۔ آپؐ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں موقع نہیں دیا کہ صدقہ کرو۔ ہر تسبیح صدقہ ہے (تسبیح کا فائدہ خود تسبیح کرنے والے اور دوسرے لوگوں کو پہنچتا ہے)، ہر تحمید صدقہ ہے، ہر لا الٰہ الا اللہ صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے (کہ گناہ سے بچ گیا، جس کا اسے اور معاشرے کو فائدہ پہنچا)۔
صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ایک آدمی اپنی شہوت کی تسکین کا سامان کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بتلائو اگر وہ اپنی شہوت کی تسکین ناجائز راستے سے کرتا تو اسے گناہ نہ ہوتا؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ آپؓ نے فرمایا: اسی طرح صحیح راستے سے تسکین کرنے کا ثواب ہے۔ (مسلم)
سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے: ’’ہر بھلائی صدقہ ہے‘‘۔ (مسلم) ابن عمرؓ سے روایت ہے: ’’جس کے پاس مال ہے وہ اس کا صدقہ کرے، جس کے پاس قوت ہے وہ قوت کا، اور جس کے پاس علم ہے وہ علم کا صدقہ کرے‘‘۔ (ابن مردویہ بحوالہ جامع العلوم والحکم شرح جوامع الکلم) حسن بصریؒ کی مرسل روایت جس کو ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے: ’’لوگوں کو خندہ پیشانی سے سلام کرنا صدقہ ہے‘‘۔ (شرح جوامع الکلم) اس حدیث کی سند میں اگرچہ کچھ ضعف ہے لیکن مسلم کی صحیح روایت کہ ’’ہر بھلائی صدقہ ہے‘‘ جامع ہے جو اس حدیث کے مضمون پر بھی حاوی ہے اور اس مضمون کی دوسری بہت سی احادیث بھی ہیں۔ اس لیے یہ روایت بھی معتبر شمار ہوگی۔ ترمذی میں ابوذرؓ کی اسی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے: ’’جنگل و بیابان میں ناواقف کو راستہ بتلا دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔
ان احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ تعلیم دینا، رہنمائی کرنا، بھلائی کا حکم کرنا، منکر سے روکنا صدقہ ہے۔ پس جو آدمی لٹریچر کے ذریعے خلقِ خدا کی تعلیم و تربیت، رہنمائی، غلبۂ اسلام کی کوشش کرے گا وہ صدقۂ جاریہ میں مال خرچ کرے گا۔ اسے مال خرچ کرنے کا ثواب بھی ملے گا کہ یہ مالی صدقہ ہے، اور تعلیم و رہنمائی کا اجر بھی ملے گا کہ یہ بھی صدقہ ہے۔