مزید خبریں

کھانے کے آداب

سیدنا عمرو ابن ابی سلمہؓ سے روایت ہے کہ میں لڑکپن میں رسولؐ کے ہاں زیر تربیت تھا۔ کھانے کے وقت میرا ہاتھ پوری پلیٹ میں چکر کھایا کرتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بسم اللہ پڑھو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور قریب سے کھاؤ‘‘ یعنی پلیٹ کا جوکنارہ تمہارے سامنے ہے، وہیں سے کھاؤ، ساری پلیٹ میں ہاتھ کو نہ گھماؤ۔ عمرو ابن ابی سلمہؓ کی یہ حرکت بظاہر ایک معمولی بات تھی، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو نصیحت کی اور کھانے کے ضروری آداب بتائے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معمولی معمولی باتوں میں بھی آپؐ کو لوگوں کی تعلیم وتربیت کا کتنا خیال رہتا تھا۔ یاد رہے کہ سیدنا عمروبن ابی سلمہؓ ام المؤمنین ام سلمہؓ کے پہلے شوہر ابوسلمہؓ کے پہلے لڑکے تھے۔ آپؐ اولاد کی طرح ان کی تربیت کا خیال رکھتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے کبھی کھانے پر نکتہ چینی نہیں کی۔ اگر خواہش ہوئی تو کھا لیا اور اگر ناپسند ہوا تو چھوڑ دیا۔ یعنی اصل چیز زندگی کے لیے کھانا ہے، نہ کہ کھانے کے لیے زندگی۔ اس لیے جس کے سامنے زندگی کا اعلیٰ نصیب العین ہو، وہ کھانے پینے کی چیزوں میں میخ نکالتا ہے اور نہ بات بات پر گھر والوں کو ٹوکنے اور ان سے الجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے رسولؐ سے عرض کیا کہ ہم کھاتے ہیں۔ سیری نہیں ہوتی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مل کر کھانا کھایا کرو اور اللہ تعالیٰ کے نام کا بھی ذکر کرو، تمہارے کھانے میں برکت ہوگی‘‘۔
ایک دفعہ ایک صحابی نے آپؐ سے دریافت کیا کہ آپس میں محبت بڑھانے کا عملی طریقہ کیا ہے؟ آپؐ نے انتہائی حکیمانہ اور بلیغ مشورہ دیا: ’’مل جل کر کھایا کرو‘‘۔ ایک ہی دسترخوان پر مل جل کر کھانا محبت بڑھانے کا واقعی بہترین طریقہ ہے۔ بڑے سے بڑا دشمن بھی اگر ایک وقت کا کھانا مشترکہ دسترخوان پر بیٹھ کر کھا لے تو دشمنی کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’جس کے ہاتھ میں چکنائی ہوگی، وہ اسے دھوئے بغیر سوگیا اوراسے کوئی نقصان پہنچا تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے‘‘۔ یعنی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ دھولینا ضروری ہے۔ خصوصاً جب کہ ہاتھ میں چکنائی لگی ہوئی ہے۔ آداب طعام کی ان نفاستوں کے علاوہ آپؐ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے ہاں کھانے کا کوئی ایسا اہتمام نہ تھا کہ روزانہ معمولاً کو ئی غذا آپ کے دسترخوان پر ہوتی۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں جس طرح آپؐ نے سادگی کو اپنا شعار بنایا، ان کا دسترخوان بھی سادگی کی مثال تھا۔ لذیذ، مرغن اور پْرتکلف کھانوں سے ہمیشہ اجتناب فرمایا اور ہمیشہ سادہ غذائیں استعمال کیں۔
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے تمام عمر چپاتی نہیں کھائی۔ علامہ ابن حجرؒ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ آپؐ کا چپاتی نہ کھانا حرمت کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ باریک اور پتلی روٹی عموماً عیش پرستوں کی غذا ہوتی ہے۔ اس لیے آپؐ نے عمر بھر اس سے اجتناب کیا۔ آپؐ اکثر زمین پر د سترخوان بچھا کر کھانا کھایا کرتے۔ بالعموم گھٹنوں کے بل یا اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ سہارا یا ٹیک لگا کر کھانا نہ کھاتے۔ کھانے میں عجلت سے کام لیتے اور فرماتے میں اس طریقے سے کھانا کھاتا ہوں، جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے۔ کھانا تین انگلیوں سے کھاتے۔ بسم اللہ سے شروع کرتے اور خدا کی حمدوثنا پر ختم فرماتے۔
کھانے کے معاملے میں آپؐ کی عادت یہ تھی کہ جو حلال غذا سامنے رکھ دی جاتی۔ آپؐ اسے تناول فرمالیتے اور اسے رد نہ فرماتے او ر نہ کبھی غیر موجود چیز کے طلب میں تکلف فرماتے۔ البتہ اگر طبعاً کوئی چیز غیر مرغوب ہوتی تو اسے نہ کھاتے، نہ کسی کھانے کے مزے دار نہ ہونے کی شکایت فرماتے۔ دسترخوان پر آپؐ کا یہ معمول تھا کہ جو چیز سامنے رکھی ہوتی اسے کھانا شروع کرتے، ادھر ادھر ہاتھ نہ بڑھاتے۔ آپؐ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے کہ دوسروں کے سامنے رکھے ہوئے کھانوں پر ہاتھ چلایا جائے۔ عموماً بھوک رکھ کر کھانا کھاتے۔ فرمایا کرتے: ’’مومن کی شان یہ ہے کہ وہ غذا کم کھایا کرے‘‘۔