مزید خبریں

ملکی نظام تعلیم پر استعماری قوتوں کا تسلط ہے ،حکمرانوں نے نظریہ پاکستان سے ہمیشہ بے وفائی کی،شوریٰ جماعت اسلامی

لاہور( نمائندہ جسارت) مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجلاس اس امرکو مملکت خداداد پاکستان اور اسلامیان ِپاکستان کے لیے انتہائی بدقسمتی اوربدشگونی قراردیتا ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ملک کے نظامِ تعلیم پر استعماری قوتوں کاتسلط ہے۔ حکومتوں نے ان ہی استعماری قوتوں کے ایجنڈے کوہی آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ہمیشہ نظریہ اسلام جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے، کے ساتھ بے وفائی کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں دورِغلامی کا طبقاتی نظامِ تعلیم رائج رہا۔اسی طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے ہم ایک اُمت یا ایک قوم بننے کے بجائے خاندانوں،گروہوں، مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے۔ہر حکومت نے نظامِ تعلیم میں بہتری کے لیے کھوکھلے نعرے تو لگائے اوروعدے بھی کیے،لیکن عملی طور پر اُنھوں نے استعماری قوتوں ہی کی خدمت کی،جس کی وجہ سے ملک میں دیگر شعبوں کی طرح شعبہ تعلیم بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2006ء میں نظامِ تعلیم میں اصلاحات کے نام سے ملک میں سیکولر اقدار کو فروغ دیا۔ مسلم لیگ (ن) نے 2013ء میں اپنے انتخابی منشور میں’’تعلیم سب کے لیے‘‘کا نعرہ دیا،لیکن کروڑوں بچے اسکولز سے باہر رہے۔اسی طرح پی ٹی آئی نے 2020ء میں ’’ایک قوم،ایک نصاب‘‘کا نعرہ دیا،لیکن عملی جامہ پہنانے میں بُری طرح نا کام رہی۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت بھی پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہے، اس لیے ان سے بھی تعلیمی بہتری کی کوئی توقع نہیں ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس شعبہ تعلیم میں استعماری قوتوں اور این جی اوز کی مداخلت، حکومتی رویے ،لاپرواہی،غفلت، غلط پالیسیوں ،اسلامی تعلیمات کونصاب سے نکالنے ،نااہل افراد کی تقرریوں،عدم توجہی،کرپشن،بے حیائی وناچ گانے ،نظم و ضبط کا فقدان ،غیرمعیاری تعلیم سمیت دیگر تمام اُمورپر تشویش کااظہار کرتے ہوئے درج ذیل اہم اور فوری اقدامات تجویز کرتاہے‘ اُمت واحدہ کی تشکیل کے لیے ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں یکساں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کورائج کیا جائے۔مسلمانوں کی تاریخ میں مخلوط نظامِ تعلیم کی گنجائش نہیں ہے، اسے فی الفورختم کیا جائے۔ پرائمری کی سطح کے بعد طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیمی اداروں کے انتظامات کیے جائیں۔نیز خواتین کے لیے الگ یونی ورسٹیاں قائم کی جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 25-Aکے تحت 5تا16سال عمر کے بچوں اور بچیوں کی مفت اور لازمی تعلیم کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ 2009 ء کی تعلیمی پالیسی میں تجویز کیا گیا تھا کہ مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 7فی صد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے گا،لیکن عملاً اس وقت 3فی صد سے بھی کم ہے،جو ناکافی ہے۔اس لیے جی ڈی پی کا7فی صد تعلیم کے لیے مختص کیاجائے۔ حکومت نے مالی سال 2022-23ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ سالانہ بجٹ 65ارب روپے میں کمی کر کے 30ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ کیا جائے۔انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(آئی بی اے) کراچی میں ’ہم جنس پرستی‘کے حوالے سے ایک محفل کا انعقاد کیا گیا،اسی طرح پنجاب میں کلچر کے نام پر تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کے پروگرامات ہوئے۔اس نوعیت کے پروگرمات پر سختی سے پابندیاں عائد کی جائیں ، ایسے تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے اور اُس میں ملوث افراد کو قرارواقعی سزا دی جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں عدم توجہی، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے تعلیم غیر معیاری اور گراوٹ کا شکار ہے۔اس لیے کرپٹ ،نااہل افراد کی جگہ ایمان دار،دیانت دار اور قابل افراد کی تقرریوں کو یقینی بنایاجائے۔ دستور پاکستان کی دفعہ 251اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اُردو زبان کو فی الفور سرکاری زبان اورذریعہ تعلیم بنانے کے لیے عملی قدم اٹھایا جائے۔نیز مقابلے کے تمام تحریری اورزبانی امتحانات قومی زبان میں لیے جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 31 کے مطابق نصابِ تعلیم کواسلام کی اساسی اقدار(توحید،رسالت،آخرت اور عبادات) کے مطابق تشکیل دیا جائے اورجدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی تعلیم کا منصوبہ خوش آیند ہے،لیکن تدریس قرآن کے نصاب میں طلبہ و طالبات کی ذہنی سطح کا خیال نہیں رکھا گیا ہے،اساتذہ کی بھرتیوں کا عمل بھی تعطل کاشکار ہے اور جانچ کا طریقہ وضع نہیں کیاگیا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اسی شعبے کے ماہرین کی مدد سے نصاب کو طلبہ و طالبات کی ذہنی سطح کے مطابق ترتیب دیا جائے،اساتذہ کی تقرریوں کو یقینی بنایا جائے اور جانچ کا نظام وضع کیاجائے۔ ہرسطح کے نصاب میں عربی زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے تاکہ طلبہ و طالبات اسلام کی اصل روح سے واقفیت حاصل کر سکیں۔ غیرملکی این جی اوز اور استعماری قوتوں کے دباؤ میں آکر نصاب تعلیم سے قرآن کی آیات، سیرت النبی ﷺ ،غزوات،مسلمان شخصیات اور مسلمانوں کی علمی وسیاسی عظمت پر مبنی لوازمے کوانتہاپسندی سمجھ کر نکالنے کے سلسلے کو بند کیا جائے۔اسلامیات کے لازمی مضمون کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھی سازشیں ہو رہی ہیں،جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔حکومت کسی بیرونی دباؤ میں آکر اسلامیات کی لازمی مضمون کی حیثیت کو ختم نہ کرے۔ کووڈ۔19اور یکساں قومی نصاب تعلیم کے نام پر تعلیمی سیشن کو بدل ڈالاہے۔ تعلیمی سیشن قبل ازکوروناوبا اپریل تا مارچ ہوا کرتا تھا، اگست تا مئی کردیا گیا،جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ تعلیمی سیشن کو اپریل تا مارچ کیا جائے۔ 2010 ء میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے حوالے کی گئی ، اس بارے میں صوبوں کو وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے۔عملاً صوبوں میں اس بوجھ کو اُٹھانے کی اہلیت اورصلاحیت بھی نہیں ہے۔اس لیے شعبہ تعلیم کو دوبارہ وفاق کے سپرد کیا جائے۔ تربیتی پروگرامات کے ذریعے اساتذہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مختلف مضامین خواہ ریاضی ہو،انگریری، سائنس یا دیگر، کو نظریہ اسلام کی روشنی میںپڑھاسکیں اور جدیددور کے تقاضوں کے مطابق تدریس کو مؤثربنانے کے لیے سمعی و بصری معاونات سے استفادہ کر سکیں۔ ملک سے ناخواندگی کوجلد از جلد دور کرنے کے لیے ممکنہ تدابیراختیار کی جائیں۔اس کے لیے تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام میں بہتری لائی جائے۔ تعلیمی اداروں میں پانی، بجلی، واش روم، چاردیواری، کھیل کے میدان اور تحفظ جیسی سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت لیبارٹریوں اور اور لائبریریوں کو مناسب فنڈ فراہم کرے تاکہ طلبہ و طالبات کے سائنسی، مطالعے اور تحقیق کے ذوق کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اساتذہ کی جائز معاشرتی اور معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے مشاہروں، تربیت ،ترقی اور مراعات کا جامع نظام وضع کیا جائے ۔تاہم غیر ضروری انتظامی اخراجات کو کنڑول کرنے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔ مرکزی اور صوبائی محکموں کی عدم توجہ اور کمزور گورننس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار انتہائی ناقص ہے۔تاہم نجی تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہت حوصلہ افزا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کرے اوراُن کے یوٹیلٹی بلز میں کم ازکم پچاس فی صد رعایت دی جائے۔ ملک میں موجود مساجدو مدارس شرح خواندگی بڑھانے میں مؤثر کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس لیے ان کے لیے مشکلات پیداکرنے کے بجائے اُن کے یوٹیلٹی بلز معاف کیے جائیں اور ان اداروں کے لیے بھی بجٹ میں باقاعدہ حصہ مختص کیاجائے۔