مزید خبریں

کیا فوجی ترجمان فیصلہ کریں گے،سازش تھی یا نہیں؟عمران خان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک+خبرایجنسیاں) چیئر مین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے استفسارکیا ہے کہ کیا فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار فیصلہ کریں گے سازش تھی یا نہیں؟ ان کا نقطہ نظر ہوسکتا ہے فیصلہ نہیں، کہتے ہیں مداخلت ہوئی تو کون فیصلہ کرے گا مداخلت ہوئی یا نہیں؟ عدالت عظمیٰ کو چاہیے جوڈیشل کمیشن بنائے اور تحقیقات کرائے۔ نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق سوشل میڈیا پر عوام کے سوالوں کے جواب کے دوران مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا کھلی سماعت کرائیں پتا چل جائے گا مداخلت ہوئی یا نہیں، جوسازش ہوئی اس سے ہماری قوم زندہ ہوگئی ہے، حکومت گرائی گئی تو بھارت، اسرائیل میں خوشیاں منائی گئیں، اپنے حقوق کے لیے باہر نکلیں،زندہ قوم کی طرح حقوق کے لیے لڑیں۔پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے ہمارے مؤقف کی تائید کی کہ مداخلت ہوئی ہے، سازشی مراسلے پر حقائق سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، ہمارے پاس ریکارڈ ہے ہمارے لوگ امریکی سفارتخانے میں جایا کرتے تھے،ہمارے پاس ریکارڈ ہے ہمارے لوگ امریکی سفارتخانے میں جایا کرتے تھے، ہمارے اتحادیوں نے بھی اچانک ہی ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا، 8مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی، اس دھمکی کا سیدھا مطلب مجھے ہٹانا تھا، ہمارے سفیر نے سائفر بھجوایا جو براہ راست میرے تک پہنچا گیا، ڈونلڈ لو نے دھمکی دی عمران خان کو نہ ہٹایا تو اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا، 7مارچ کو ڈونلڈ لو نے آفیشل میٹنگ میں بات کی، ہمیں تو معلوم ہے کہ سازش ہوئی اس لیے تحقیقات چاہتے ہیں، معاملے پر سماعت ہو جائے تو دوبارہ کسی کی سازش کرنے کی جرات نہیں ہو گی۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر جانبدار ہیں، پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کو الیکشن کمیشن پر اعتماد ہی نہیں ہے، قائداعظم کی روح کو خوش کرنے کی خاطر حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔اس سے قبل راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ تین سال تک مہنگائی مارچ کرنے والوں نے عوام کی کمر توڑ دی، پاکستان سری لنکا کے راستے پر نکل گیا،پنجاب میں حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی، ہرطرف مجرم مافیا دندناتا دکھائی دے رہاہے،وزیراعظم کا کرپٹ بیٹا ڈھونگ انتخاب سے پنجاب میں اقتدارپرقابض ہوا، پاکستان کاسب سے زیادہ آبادی والا صوبہ مکمل سیاسی انتشار کی زد میں ہے، لوگ مشکلات کا شکار ہیں،کسانوں کی فصلیں بھی خطرے سے دوچار ہیں۔عمران خان نے کہا کہ لانگ مارچ کے دوران عوام کا سمندر دیکھ کر ان کی ’کانپیں ٹانگنا‘ شروع ہوگئی تھیں، انہوں نے 2 ماہ میں جتنی مہنگائی کی ہم نے ساڑھے3سال میں نہیں کی، بجلی، پیٹرول غائب ہیں، روپیہ بھی گر رہا ہے، ملک تیزی سے آگے جارہا تھا چوروں نے سازش کرکے ہماری حکومت گرائی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ بجلی کے یونٹ کی قیمت مزید بڑھنی ہے، ہمیں صاف و شفاف الیکشن چاہئیں،الیکشن کمیشن شفاف الیکشن نہیں کراسکتا، شہباز شریف کی جتنی بھی ڈیولپمنٹ تھی وہ اشتہاروں میں تھی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی 2سال میں وہ ترقی ہوئی تھی جو 30 سال میں نہیں ہوئی تھی،ٹیکس وصولی ریکارڈ تھی، فصلیں ریکارڈ تھیں،ملک تیزی سے آگے جارہا تھا،ہماری برآمدات 10 فیصد گرگئیں، ترسیلات زر بھی گر گئی ہیں۔ سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ صحافیوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں، میڈیا ہاؤسز کو دھمکیاں مل رہی ہیں، خود مجھ پر 8 ایف آئی آرز کٹی ہوئی ہیں، بڑے بڑے ڈاکوؤں سے سب ڈریں گے، کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا، صرف ایک ادارہ بچا ہوا ہے وہ عدلیہ ہے، اگر عدالت عظمیٰ سماعت کرتی ہے تو یہ اس پر حملہ کردیتے ہیں، بلیک میل مافیا کو جہاں سے خطرہ ہوگا اس کو ڈرائے دھمکائے گا، یہ ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے، پاکستان میں انصاف کا نظام خطرے میں ہے، جنہوں نے چوری پکڑنی ہے وہ سب خود کو بچا رہے ہیں، میں کال دینے والا ہوں، سب کو پورا زور لگا کر میرے ساتھ نکلنا ہے۔قبل ازیں تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے شیریں مزاری کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ترجمان بار بار سیاسی معاملات کی تشریح کرنا ضروری نہ سمجھیںتو فوج اور ملک کے لیے اچھا ہوگا،سیاسی معاملات سیاستدانوں کو آپس میں حل کرنے دیں۔انہوں نے کہا کہ ایک نہیں دو مرتبہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد پریس ریلیز جاری ہوئی جس میں واضح لکھا ہے، بیرونی مداخلت کے الفاظ استعمال ہے، پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے، یہ وہ سچ ہے جس پر کوئی دو رائے نہیں، ہمارا ماننا ہے کہ اس کے تانے بانے جوڑیں گے تو اس کی کڑیاں ملتی ہیں، کس طرح غیر ملکی سفیر ان لوگوں سے ملاقات کررہے ہیں جو پارٹی سے وفاداری تبدیل کررہے ہیں، ہمیں نظر آتا ہے پیسہ آرہا اور وہ بہایا جارہا ہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر درست کہتے ہیں کہ کمیٹی میں کچھ عسکری نمائندوں نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں سازش کے شواہد نظر نہیں آرہے جب کہ سویلین میں اکثر کی رائے تھی کہ یہاں سازش نظر آرہی ہے اور یہ ایک رائے تھی، عمران خان نے یہ آرڈر جاری نہیں کیا کہ میں کہہ رہا ہوں سازش ہے تو سب مان جاؤ، وہ اسے کابینہ میں لائے اور جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہوا مگر پھر حکومت چلی گئی لہٰذا اب بھی اپیل ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے جس کی اوپن سماعت ہو اور سارا پاکستان دیکھے کیا شواہد ہیں، اس بنیاد پر حقائق سامنے لائے جائیں۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ قومی سلامتی کا دفاع صرف فوج کا کام نہیں، یہ منتخب لیڈرشپ کی اولین ذمے داری بنتی ہے کہ اگر بیرونی مداخلت نظرآرہی ہے اور قومی سلامتی کا خطرہ ہے تو انہوں نے دفاع کرنا ہے، کابینہ کے لوگ حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ سلامتی اور خودمختاری کا دفاع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر صدر پاکستان ہیں، انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا اس میں کمیشن بنانے کا کہا گیا، پاکستان کے ا?ئین میں آئینی ذمے داری جسے دی گئی اس میں کہیں ابہام نہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کا جو تجزیہ ہے اسے مان لیا جائے، صرف مطالبہ ہے کہ قوم کا حق بنتا ہے کہ حقیقت تک پہنچا جائے، اس تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ اعلیٰ ترین عدالت ہے لہٰذا فیصلہ ہوا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حیثیت سے عمران چیف جسٹس کو دوبارہ خط لکھیں گے، ان سے ایک دفعہ پھر درخواست کی جائے گی کہ ان معاملات کو دیکھیں۔