مزید خبریں

میرپورخاص،محکمہ خوراک گندم کی خریداری کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام

میرپورخاص(نمائندہ جسارت) محکمہ خوراک گندم کی خریداری کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا ضلع بھر میں گندم اور آٹے کا زبردست بحران ہونے کا خدشہ ہے آٹے کی فی کلو قیمت 85 روپے تک پہنچ گئی ہے، محکمہ خوراک نے گندم کی خریداری کا ہدف ساڑھے 3 لاکھ بوری سے کم کر کے 2 لاکھ 20 ہزار بوری مقرر کر دیا اور ڈی ایف سی کی مبینہ لاپرواہی اور عدم دلچسپی کے باعث ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا، آٹا چکی ایسوسی ایشن کے مطابق ضلع بندی کے باعث گندم کی قیمت 2800 روپے فی من تک پہنچ چکی ہے، ڈی ایف سی کی ملی بھگت سے ذخیرہ اندوز بے لگام ہیں۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ خوراک میرپورخاص کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی کے باعث گندم کی خریداری کا ہدف حاصل نہ کرنے کے سبب میرپورخاص میں فائن آٹے کی فی کلو قیمت 85 روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کیلیے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہو کر رہ گیا ہے محکمہ خوراک میرپورخاص کی جانب سے رواں سال گندم کی خریداری کا ہدف ساڑھے 3 لاکھ بوری مقرر کیا تھا لیکن محکمہ خوراک کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں اور گندم اسمگلنگ ہونے کی وجہ سے محکمہ خوراک نے گندم کی خریداری کا ہدف سے ایک لاکھ 30 ہزار بوری کم کر کے 2 لاکھ 20 ہزار بوری مقرر کر دیا ہے جبکہ ضلعے کو سالانہ گندم کی ضرورت ساڑھے پانچ سے 6 لاکھ بوری ہے۔ ڈی ایف سی ڈاکٹر وسیم ابڑو کے مطابق محکمہ خوراک کی جانب سے اس وقت تک گندم کی ایک لاکھ 52 ہزار بوری کی خریداری کی جا چکی ہے اور مزید گندم کی خریداری ناممکن ہے۔ اس حوالے ذرائع کا کہنا ہے کہ گندم کے ہر سیزن میں من پسند ڈی ایف سی اور گودام انچارج کی تعیناتی کی کرپشن کے باعث گزشتہ کئی سالوں سے گندم کا مقررہ ہدف حاصل نہ ہونے کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور محکمہ خوراک میرپورخاص کے افسران کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے حکومت سندھ کی جانب سے گندم کی کیلیے جاری کیے جانے والے فنڈز جون میں لیپس ہو جائیں گے اور گندم کی خریداری کا ہدف پورا نہ ہونے سے گندم کا بہت بڑا بحران آئے گا اور آٹے کی فی کلو قیمت ایک سو روپے کلو سے اوپر جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے آٹا چکی ایسوسی ایشن کے عہدیدار وں کا کہنا ہے کے حکومت کی جانب سے گندم کی نقل حمل پر پابندی عائد ہے اور گندم ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے میں نہیں جا سکتی جس کی وجہ سے گندم کی فی من قیمت 2800 سو روپے تک پہنچ چکی ہے اور اس قیمت پر بھی گندم مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے آٹا 3400 سو روپے فی من میں فروخت کیا جا رہا ہے اگر اسی طرح گندم کا بحران رہتا ہے اور گندم کی نقل و حمل پر ضلع بندی برقرار رہتی ہے تو گندم اور آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ محکمہ خوراک کی جانب سے کراچی سمیت دیگر صوبوں کے تاجروں کو کھلی چھوٹ دی ہوئے ہے وہ اپنی ذخیرہ کی ہوئی گندم کراچی اور دیگر شہروں میں منتقل کررہے ہیں جبکہ اگر چکی والے گندم منتقل کرتے ہیں تو محکمہ خوار ک کے اہلکار گندم پکڑ لیتے ہیں جو کہ کھلی ناانصافی ہے فوری طور پر ضلع بھر میں گندم کی نقل وحمل پر عائد پابندی ختم کی جائے۔ اس حوالے سے لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے سامنے بے بس ہے جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور عام آدمی اپنے بچوں کا دو وقت کا نوالہ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی لا کر غریب آدمی کو ریلیف فراہم کیا جائے۔