مزید خبریں

آئی ایم ایف کمزور ممالک کی معیشت پر قبضہ کرکے انہیں غلام بناتا ہے

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ) ایک سود خور ادارہ ہے،جو سودی قرضوں کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہم پر مسلط ہے،آج تک جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے ان میں سے کسی ایک ملک کی معیشت بھی صحت مند، مضبوط اور توانا نہیں ہو سکی ہے، اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ آئی ایم ایف کا مقصد کمزور قوموں کو معاشی اعتبار سے طاقت ور بنانا نہیں، بلکہ انہیں اپنا غلام بنانا ہے۔ آئی ایم ایف ایک سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے ان کا اپنا طریقہ کار ہے یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کس ملک کی معیشت کمزور ہے پھر اسے قرض دے کر اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ملک مکمل طور پر ان کے جال میں پھنس جاتا ہے اس کے بعد وہ جتنی بھی کوشش کر لے ان کے چنگل سے نہیں نکل سکتا ہے ۔ عالمی سودی مافیا نے یہ عالمی سودی مالیاتی نظام تخلیق ہی اس لیے کیا ہے تاکہ دنیا بھر کی اقوام کو معاشی غلامی میں جکڑا جائے، مقروض قوموں کی عالمی برادری کے نزدیک کوئی عزت نہیں ہوتی ہے، پا کستانی حکومتیں گزشتہ 75 برس سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔ ان خیا لات کا اظہارپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر اور آئی ایم ایف کے ساتھ تیس برس تک وابستہ رہنے والے ماہر معاشی امور ڈاکٹر ندیم الحق،ملک کے معروف ماہر معاشیات ،کالم نگار اور معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر قیصر بنگالی،سابق ڈی جی آئی ایس آئی مرحوم جنرل حمید گل کے صاحبزادے و ماہر معیشت دان محمد عبداللہ حمید گل ، آل تاجر اتحاد کراچی کے صدر عتیق میر،کریکٹر ایجوکیشن فاونڈیشن پاکستان کراچی کے ایمبیسیڈر ،پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر اور معروف ماہر معاشیات محمدفاروق افضل اوربانی صدر ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز ہزارہ ڈویڑن فردوسیہ فضل نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال:آئی ایم ایف کا مقصد کمزور معیشت کی بحالی ہے یا کمزور قوموں کی معاشی غلامی؟کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا کہ پاکستانی حکومتیں گزشتہ 75 برس سے انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ( آئی ایم ایف )کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پرگھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زمینی حقائق کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھا تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لیے لیکن پھر خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا ہے۔ڈاکڑ ندیم نے کہا کہ بھارت نے 1991 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انہوں نے اپنا سونا بیچ کر قرض کی رقم واپس کی اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا، اسی طرح جنوبی کوریا اور ویت نام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے بعد آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کیا اور پھر اسے کبھی نہیں پکارا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو کمزور ممالک کی ایک بڑی تعداد کو قرض مہیا کرتا ہے، ان قرضوں کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے اسے بگاڑتے ہیں۔ آج تک جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے ان میں سے کسی ایک ملک کی معیشت بھی صحت مند، مضبوط اور توانا نہیں ہو سکی ہے، اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ آئی ایم ایف کا مقصد کمزور قوموں کو معاشی اعتبار سے طاقت ور بنانا نہیں، بلکہ انہیں اپنا غلام بنانا ہے۔ آئی ایم ایف کا کردار ایک بین الاقوامی پولیس والے جیسا ہے۔ آئی ایم ایف غریب ممالک کو ان شرائط پر قرض دیتا ہے۔سود کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ اس سے غربت بڑھ جاتی ہے۔ٹیکس بڑھایا جائے ۔ اس سے عوامی سہولیات میں کمی آتی ہے اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اس سے ملکی اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔بین الاقوامی سرمائے کی ملک میں آمد و رفت پرسے تمام پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ اس سے اسٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔بین الاقوامی بینکوں اور کارپوریشنوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے‘ اس سے ملکی صنعتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔اس کے بعد ان غریب ممالک کو بس اتنی رقم مزید قرض دی جاتی ہے کہ وہ اپنے موجودہ بین الاقوامی قرضوں کا سود ادا کر سکیں۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ملکی دولت آئی ایم ایف کے پاس چلی جاتی ہے ۔ محمد عبداللہ حمید گل نے کہا کہ آئی ایم ایف ایک سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے ان کا اپنا ہی طریقہ کار ہے یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کس ملک کی معیشت کمزور ہے پھر اسے قرض دے کر اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ملک مکمل طور پر ان کے جال میں پھنس جاتا ہے اس کے بعد وہ جتنی بھی کوشش کر لے ان کے چنگل سے نہیں نکل سکتا‘ پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی ایسی ہی ہے پاکستان کو آئی ایم ایف نے قرض دے کر اس قدر مفلوج کر دیا کہ اب اس کی معیشت بغیر قرض کے چلنے سے قاصر ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ہمیں قرض پرسود کی رقم ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑ رہا ہے اور قرض دینے والا اپنی کڑی شرائط پر ہمیں قرض دے رہا ہے۔ابتداء سے آج تک ہر حکومت نے دعویٰ تو کیا کہ ہم قرض نہیں لیں گے کشکول توڑ دیں گے لیکن افسوس اس پر عمل نہ کیا جا سکا اور ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت سے زیادہ ملکی قرضوں میں اضافہ کیا ہے۔ عتیق میر نے کہا کہ آئی ایم ایف ایک سود خور ادارہ ہے،جو سودی قرضوں کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہم پر مسلط ہے،وفاقی حکومت کا 40فیصدبجٹ آئی ایم ایف کے قرضوں کے سود کی ادئیگی میں چلاجاتا ہے ،پاکستان کو آئی ایم ایف کی سودی لعنت سے نکلنا ہو گا،دیگر مما لک کی طرح ہمیں بھی آئی ایم ایف کو خیر باد کہناچاہیے تاکہ پاکستا ن بھی خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامز ن ہو سکے۔ محمدفاروق افضل نے کہا کہ آئی ایم ایف کے قرض دینے کا مقصد کمزور معیشت کی بحالی نہیں ہے بلکہ کمزور قوموں کو معاشی غلام بنا نا ہے،عالمی سودی مافیا نے یہ عالمی سودی مالیاتی نظام تخلیق ہی اس لیے کیا ہے تاکہ دْنیا بھر کی اقوام کو معاشی غلامی میں جکڑا جائے،سود ایک ایسا ناسور ہے جو معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے‘ ہمارے معاملات پر آئی ایم ایف کا مکمل کنٹرول ہے وہ قرض دے کر ہماری مکمل نگرانی کررہاہے ہمیںبتاتاہے کہ یہ قرضہ کہاںخرچ کرناہے،عوام پرمزیدکتناٹیکس لگاناہے اورکونسی چیزمہنگی کرنی ہے‘ عالمی معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ بھی سودی ذرائع معیشت کا استعمال ہے، پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی ہے ،آئی ایم ایف سے نکلنے کے لیے اسلامی معیشت کے نظام کو اپنانا ہوگا ۔ فردوسیہ فضل نے کہا کہ مقروض قوموں کی عالمی برادری کے نزدیک کوئی عزت نہیں ہوتی ہے، آہستہ آہستہ انہیں قرض دینا بند بھی کیاجاسکتا ہے۔ آج پاکستان آئی ایم ایف سمیت دیگر مقامی و غیر مقامی سرمایہ داروں کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے ،قرضے اتنے زیادہ ہوگئے کہ قرضے تو بہت دور کی بات ان پر لاگو سالانہ سود ہی ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے، آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔ مزید قرضے لینے کے بجائے حکومت کو افرادی قوت کو فعال کرنے اور مالیاتی پالیسیوں کی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔