مزید خبریں

پختونخوا کا 1332 ارب کا بجٹ پیش،تنخواہوں میں 16 پنشن میں 15 فیصد اضافہ

پشاور(آن لائن،اے پی پی)پختونخوا کا 1332 ارب کا بجٹ پیش‘ تنخواہوں میں 16‘ پنشن میں 15 فیصد اضافہ۔صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے خیبرپختونخوا کا 1332 ارب سے زائد کا بجٹ پیش کردیا۔وزیر اعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت کے پی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں بجٹ پیش کیا گیا۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔وزیر خزانہ نے تقریر میں بتایا کہ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کا حجم 418ارب روپے ہے۔ دس لاکھ خاندانوں کے لیے فوڈ کارڈ کو شامل کیا گیا ہے جس پر 26 ارب روپے لگیں گے۔ صحت کارڈ میں سرکاری ملازمین کے لیے او پی ڈی بھی شامل ہے، خواتین کے لیے اسپیشل اسکیم کے تحت 3.5 ارب، بزرگ شہریوں اور خواجہ سراؤں کے لیے 5 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔بجٹ تقریر سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کا شکار صوبہ تھا لیکن اب سرمایہ کاری کا مرکز بن چکا ہے، یہ وہ ترقی کا سفر ہے جو خیبرپختونخوا نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت میں طے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں 16 فیصد، پنشن میں 15 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طورپر 30 فیصداضافہ ہوگا۔ 15 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس پہلے ہی دے چکے ہیں۔ وفاق سے آئل،گیس رائلٹی کی مد میں 31 ارب روپے ملیں گے، بندوبستی اضلاع کے اخراجات کا تخمینہ 1109 ارب روپے لگایا ہے جبکہ ضم اضلاع کے اخراجات 223 ارب روپے ہوں گے۔ تیمور سلیم جھگڑا نے بتایا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی مد میں 68 ارب 60 کروڑ ملیں گے،انہوں نے بتایا کہ وفاق کی ٹیکس محصولات کا تخمینہ 570 ارب 90 کروڑ لگایا گیا ہے جبکہ وفاق سے آئل اور گیس رائلٹی کی مد میں 31 ارب روپے ملیں گے، بجلی کے خالص منافع اور بقایاجات کی مد میں 61 ارب 90 کروڑ ملنے کی توقع ہے جبکہ قبائلی اضلاع کے لیے 208 ارب روپے کی گرانٹس ملنے کی توقع ہے۔صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں 68 ارب 60 کروڑ روپے ملیں گے جبکہ صوبائی ٹیکسوں کی مد میں 85 ارب روپے وصول ہوں گے، اس کے علاوہ 93 ارب روپے کی غیر ملکی امداد بھی بجٹ میں شامل ہے، دیگر محاصل کا تخمینہ 212 ارب روپے لگایا گیا ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلیے 447 ارب 90 کروڑ رکھے گئے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن کے لیے 107 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنشن پروگرام ختم نہیں کر رہے بلکہ پنشن فنڈ قائم کر رہے ہیں، فی الحال پنشن فنڈ میں نئے ملازمین کو ڈال رہے ہیں۔ اسکیم کا نام کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم ہو گا، نئے بھرتی سرکاری ملازم کی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد اسکیم میں شامل ہو گا۔صوبائی وزیر نے بتایا کہ 50 ہزار تنخواہ والے نئے ملازم کے پنشن فنڈ میں 10فیصد رقم یعنی 5 ہزار جمع ہوں گے، حکومت اس کے مقابلے میں 12 فیصد رقم یعنی 6 ہزار روپے جمع کریگی، 50 ہزار کمانے والے ملازم کے پنشن فنڈ میں ہر ماہ 11ہزار روپے جمع ہوں گے یعنی ہر ماہ پنشن فنڈ میں ملازم کے جمع 11ہزار روپے انویسٹ ہوں گے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ پہلے سال پنشن کنٹری بیوشن فنڈ میں 11سے 12 ارب روپے آئیں گے، 6 سال میں پینشن فنڈ 100 ارب روپے کا بن جائے گا، پشنن فنڈ سے انویسٹ کی گئی رقم سے صوبے کی معیشت کو ترقی ہو گی۔انہوں نے بتایا کہ پولیس شہداء پیکج کو بڑھا دیا گیا ہے، خیرپختونخوا حکومت نے گریڈ 6 سے 16 تک پولیس کے شہدا پیکج کو بڑھا دیا گیا ہے گریڈ 7 سے16 تک پولیس اہلکاروں کے الاؤنس میں ڈی آر اے کے برابر اضافہ کرنے کے علاوہ ایگزیکٹو الاؤنس کو پرفارمنس الاؤنس میں تبدیل کر دیا ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں صحت کے بجٹ میں 55 ارب کا اضافہ کیا گیا ہے، صحت کارڈ پلس میں سرکاری ملازمین کے لیے بھی او پی ڈی کی سہولت ہو گی۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال 8 لاکھ افراد نے صحت کارڈ کے ذریعے علاج کرایا، اس سال صحت کا رڈ کا بجٹ 25 ارب روپے رکھا گیا ہے اور جگر کی پیوندکاری سمیت مزید 5 بیماریوں کا علاج صحت کارڈ میں شامل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بجٹ میں 10 ارب روپے مفت ادویات کی فراہمی کے لیے رکھے گئے ہیں۔تیمور سلیم کا کہنا ہے کورونا کے دوران کام کرنیوالے 675 ایڈہاک ڈاکٹرز کو مستقل کیا جائے گا۔ این ٹی ایس کے 58 ہزاراساتذہ بھی جولائی سے مستقل ہوں گے، قبائلی اضلاع کیلیے 600نرسز بھرتی کی جائیں گی، صحت کارڈپلس میں سرکاری ملازمین کیلیے او پی ڈی کی سہولت بھی ہوگی۔ پٹرول کی بچت کیلیے محکموں میں فلیٹ کارڈ متعارف کرانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخواہ حکومت نے بجٹ میں جنگلات میں لگی آگ بجھانے میں شہید ریسکیو اہلکاروں کیلیے شہدا پیکیج اور 10,10 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ یہ اضافہ گریڈ 1 سے 19 تک کے ملازمین کیلیے DRA کے علاوہ ہے جس میں پولیس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں صوبے کے 10 لاکھ مستحق خاندانوں کیلیے رعایتی نرخوں پر راشن مہیا کرنے کیلیے انصاف فوڈ کارڈ کے تحت 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ 63 ہزار ملازمین کی مستقلی کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ یکم جولائی سے مستقل ہونے والے ملازمین میں 675 ڈاکٹر، 58 ہزار اساتذہ اورضم اضلاع کے128 منصوبوں کے 4079 ملازمین شامل ہیں۔خیبر پختونخوا کے مالی سال 23-2022 کے بجٹ پیش کرنے کے موقع پر وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران ن لیگ کے رکن اسمبلی اختیار ولی نے احتجاج کیا۔ایوان میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران بجٹ کی کاپیاں نہ ملنے پر صحافیوں کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا۔ صحافی بجٹ تقریر کے دوران احتجاجاً ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔وزیر محنت خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی نے صحافیوں کو منانے کی کوشش کی۔وہ بجٹ تقریر چھوڑ کر صحافیوں کو منانے کے لیے ایوان سے باہر آگئے۔دوسری جانب خیبرپختونخواکی اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی حکومت کی مالی سال2022-23 کے سالانہ بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قراردیتے ہوئے کہاکہ وزیرخزانہ نے حسب معمول ایوان میں بہت جھوٹ بولا ہے ، آج صوبہ 900 ارب کامقروض ہے ، گزشتہ بجٹ کے کتنے اہداف پورے کیے گئے ہیں ، آج صوبے کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے رل رہے ہیں ، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تھروفارورڈ 13 سو ارب تک پہنچ چکا ہے ، کیا وزیراعلی نے صوبے کے حق کے لیے وفاق سے کوئی رابطہ کیا ہے ، صوبے کے محدود وسائل کو سیاسی بنیاد پر تقسیم کیا جارہا ہے ۔ ان خیالات کااظہار مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی اختیارولی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردارحسین بابک نے بجٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اختیارولی نے کہاکہ کیاوزیر خزانہ بتا سکتا ہے کہ چار سال میں وفاق سے کتنا فنڈ لیا ، پی ٹی آئی نے اس صوبے کا خانہ خراب کردیا ہے ، آج یہ صوبہ 900 ارب کا مقروض ہوگیا ہے ، تعلیمی ایمرجنسی کا یہ حال ہے کہ سرکاری ا سکولوں کے 90 فیصد طلبہ فیل ہورہے ہیں ، صحت انصاف کارڈ میں ایسے ہسپتال شامل کیے گئے ہیں جو معمولی آپریشن کے بارہ لاکھ روپے نکال رہے ہیں ، سرکاری ہسپتال عمران خان کے کزن واٹس اپ پر چلا رہے ہیں ، پنجاب میں لوگ ایک گوگی کو روتے ہیں یہاں تو ہر شاخ پر گوگا بیٹھا ہے ، صوبے کے حق کے لیے وفاق سے لڑیں گے بھی اور چیخیں گے بھی ، سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بجلی کے کارخانے بند پڑے تھے ، اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے کہاکہ بجٹ میں پراپرٹی ٹیکس کو بڑھا دیا گیا ہے ، صوبے کے اربوں روپے کے جنگلات جل رہے ہیں مگر بجٹ میں اس کے لیے کچھ نہیں ہے ، حکومت کی نااہلی سے تعلیمی سال میں چار مہینے کی تاخیر ہوگئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یونیورسٹیاں انتظامی نااہلی کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہیں ۔