مزید خبریں

بجٹ عوامی مگر نادان دوست ؟

حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی امداد لینے کے لیے سخت بجٹ کی وجہ سے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہو کر پانچ فیصد ہو جائے گی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 5.9 فیصد تھی۔ یہ تخمینہ وزارت منصوبہ بندی نے10 جون کو پیش کیے جانے والے سالانہ بجٹ سے قبل لگایا ہے۔لیکن حکومت کا یہ بھی کہنا ہے بجٹ عوامی بھی اور تاجر دوست بھی ہے لیکن ایک ماہ کے اندر ساری بات صاف ہو جائے گی ۔مخلوط حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ بھی ہے۔ ایسے میں کفایت شعاری کے کچھ اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر حکومت نے اپنے اخراجات بچانے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جو بہت اہمیت کے حامل ہیںحال ہی میں اقتدار میں آنے والی مخلوط حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ بھی ہے۔
روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر ہو یا نمایاں طور پر کم ہوتے زر مبادلہ کے ذخائر، حکومت تمام درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آج اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔اگلے مالی سال کا بجٹ ساڑھے نو ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے، جس میں سے تقریباً چار ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی میں خرچ ہوں گے۔جہاں ایک جانب بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے بجٹ اہداف پر ڈیڈ لاک برقرار رہنے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، وہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ساتھ توانائی کے معاہدوں پر از سر نو مذاکرات کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔حکمران اپنے اصل کرنے والے کام کرنے کو تیار نہیں ہیں، کئی ایسی ٹیکس مراعات ہیں جن سے اشرافیہ براہ راست اور بالواسطہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ ایسا نہیں لگ رہا کہ بجٹ میں ان مراعات کو بڑے پیمانے پر واپس لیا جائے گا۔ جب اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کرتا ہے تو یہ بچت نیوٹرلائز ہوتی ہے۔
لوگ ہم سے اکثر یہ معلوم کرتے ہیں بجٹ کیسا ہو گا۔اس کاجائزہ لینے کے لیے سابق ڈیٹا کے مطابق آمدن کا 76 فیصد ملکی آمدن سے حاصل کیا اور 24 فیصد قرض لے کر پورا کیا گیا۔ جو 76 فیصد آمدن حاصل ہوئی اس میں سے تقریباً 40 فیصد قرضوں اور سود کی ادائیگی میں خرچ ہوئے۔ 17 فیصد عسکری اداروں کو دیے۔ 4 فیصد عوامی تحفظ، ثقافت و مذہب اور ماحولیاتی تحفظ وغیرہ پر خرچ کیے۔ صحت پر 0.20 فیصد اور تعلیم پر تقریباً ایک فیصد خرچ کیا جبکہ بقیہ 37 فیصد صوبوں کو دے دیا گیا۔یہ وفاقی حکومت کے پچھلے 9 ماہ کے اخراجات کی سادہ سی وضاحت ہے۔ ان اعداد و شمار کو جاننے کے بعد آپ کو یہ سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ مالیاتی سال 23 -2022ء کا وفاقی بجٹ کیسا ہوگا۔
وفاقی کابینہ نے سرکاری افسران اور کابینہ کے ارکان کو ملنے والے پیٹرول کے کوٹے میں 40 فیصد کمی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ہفتے میں پیٹرول کی قیمت میں 60 روپے اضافہ کے ساتھ عوام کے شدید ردعمل کے بعد سامنے آیا ہے۔سرکاری افسران اور وزرا کے ’غیر ضروری‘ غیر ملکی دوروں پر مکمل پابندی بھی کفایت شعاری مہم کا حصہ ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کہہ چکی ہیں کہ ’متعلقہ کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی صرف لازمی دوروں اور اہم دو طرفہ دوروں کی اجازت ہوگی۔‘ اسی طرح سرکاری افسران کو بیرون ملک علاج کروانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔مریم اورنگزیب کے مطابق حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر گاڑیاں خریدنے پر بھی پابندی ہوگی، جن میں اسکول بسیں، ایمبولینس یا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں شامل نہیں ہیں۔
وانائی کی بچت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے ’ہفتے میں پانچ روز کام‘ کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سرکاری محکموں کی کارکردگی موثر کرنے کے لیے ہفتے کی تعطیل ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن سرکاری حکام کی جانب سے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اسی طرح توانائی کی طلب کو کم کرنے کے لیے جمعے کے روز گھر سے کام کرنے کی پالیسی پر غور کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات نے کہا ہے کہ حکومت ورچوئل اجلاس کو بھی ترجیح دے گی۔توانائی کی بچت کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں صوبوں نے بازار رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب کابینہ نے متبادل راتوں میں اسٹریٹ لائٹس بند کرنے کے منصوبوں کی بھی منظوری دی ہے۔کفایت شعاری کے اقدامات میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی سکیورٹی پر مامور گاڑیوں میں 50 کمی کا بھی فیصلہ سامنے آیا ہے۔واضح رہے کہ اقتدار میں آنے کے فوری بعد موجودہ حکومت نے ملک میں درآمد ہونے والی مختلف اشیا کی درآمد پر پابندی لگا رکھی ہے، جن میں کھانے پینے کی اشیا اور بڑی گاڑیوں سمیت 41 لگژری اشیا شامل ہیں۔
ماہر معیشت حفیظ پاشا کے مطابق اس سال پاکستان کا بجٹ خسارہ ساڑھے پانچ ہزار ارب ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ سال 2018 میں ملک کو ادائیگیوں کے لیے 20 ارب ڈالرز درکار تھے جبکہ اس سال پاکستان کو 37 ارب ڈالرز درکار ہیں، جو آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہیں جبکہ اس سے ترقی کی شرح میں بھی تین فیصد اضافہ ہو سکے گا۔دوسری جانب تجزیہ کار شہباز رانا حکومت کے کفایت شعاری کے فیصلوں کو محض ’علامتی‘ خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہر حکومت کے اوپر دباؤ ہوتا ہے کہ جب ملکی معیشت کے حالات خراب ہو رہے ہوتے ہیں تو کچھ ایسا کام کریں، جس سے عوام کو لگے کہ حکومت بھی قربانی دے رہی ہے۔‘مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسے اقدامات کی علامتی ویلیو ہوتی ہے، جس کا مقصد حکمرانوں کی جانب سے قربانی میں ساتھ دینا ہوتا ہے لیکن اس ممکنہ بچت کا سائز بہت کم ہوتا ہے اور اقدامات کا اعلان تو کردیا جاتا ہے لیکن بعد میں ان میں انحراف بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘
’ماضی میں بھی جب گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگائی گئی تو حکومت اس کی خلاف ورزی کرتی رہی۔ جب آپ کسی وزارت میں جائیں تو آپ کو 2022 ماڈل کی گاڑیاں نظر آئیں گی۔‘’پیٹرول کے کوٹے میں 40 فیصد کٹوتی ممکنہ بچت ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک وزیر کو ملنے والے لامحدود پیٹرول سے 40 فیصد کٹوتی کیسے ممکن ہے؟ اور جب سیکرٹری کے پاس ایک گاڑی رکھنے کا حق ہے تو ان کے پاس ہمیشہ کئی گاڑیاں کیسے ہوتی ہیں؟‘بجٹ کو دیکھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ ’بیرونی اور ملکی غیر یقینی معاشی ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے جی ڈی پی کی شرح نمو قدرے کم ہو جائے گی اور زراعت (3.9 فیصد)، مینوفیکچرنگ (7.1 فیصد) اور خدمات کے شعبے (5.1 فیصد) کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ خسارہ کم کرنے کے لیے اخرجات کم اور محصولات بڑھا کر مالی استحکام برقرار رکھا جائے گا۔حالیہ مہینوں میں پاکستان کے غیر ملکی ذخائر میں شدید کمی واقع ہوئی ہے جو کم ہو کر 9.7 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ دو ہندسوں کی افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑھتے ہوے خسار کی وجہ سے اسے سخت مشکلات کا سامنا ہے
گزشتہ ماہ دوحامیں دونوں فریقوں کے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے چھ ارب ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری کا انتظار ہے۔جون کے آخر میں ختم ہونے والے مالی سال میں جولائی سے مارچ کے درمیان مالی خسارہ جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھ گیا جبکہ گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا تین فیصد تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں رواں مالی سال کے جولائی سے اپریل میں 13.8 ارب ڈالر (جی ڈی پی کے 3.5 فیصد) کا خسارہ ہوا۔رواں مالی سال جولائی تا مئی کے دوران اوسط افراط زر 11.3 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں 8.8 فیصد تھی۔اپریل میں معزول وزیر اعظم عمران خان کے بعد عہدہ سنبھالنے والے وزیراعظم شہباز شریف کی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے سنگین معاشی بحران ورثے میں ملا ہے۔
بچت کا ایک طریقہ شرح سود میں کمی بھی ہے۔ اس وقت شرح سود 13.5فیصد ہے۔ اگر اسے 6 فیصد تک لے آیا جائے تو جہاں عوام کو ریلیف ملے گا وہیں حکومت کو بھی فائدہ ہوگا۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ نجی بینکوں سے سب سے زیادہ قرض سرکار لیتی ہے۔ شرح سود کی کمی سے سود کی ادائیگیوں میں کمی ہوگی اور ایک اندازے کے مطابق 1500 ارب روپے کی بچت ہوسکے گی۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے امریکا میں خام تیل کے نرخوں میں 3 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ طلب میں اضافہ اور کئی ملکوں کو تیل کی ترسیل میں درپیش مشکلات ہیں۔نیویارک میں برنٹ نارتھ سی کروڈ کے نرخ 3.59 ڈالر یعنی 3 فیصد بڑھ کر124.16 ڈالر فی بیرل رہے۔ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے سودے 3.49 ڈالر یعنی 2.9 فیصد اضافے کے ساتھ 122.90 ڈالر فی بیرل طے پائے۔ اس سے بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کچھ فائدہ عوام کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ حکومتی بجٹ کو سہارا دینا بہترین پالیسی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عوام کو چار آنے منتقل کیے جائیں اور سرکار بارہ آنے لے اڑے۔
OOO