مزید خبریں

آئی ایم ایف خوش نہیں، مزید مشکل فیصلے کرینگے ، وزیر خزانہ

اسلام آباد (صباح نیوز/آن لائن) وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو ڈاکٹر مفتاح اسماعیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے‘ آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے‘ حکومت کو مزید مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے‘ ملک کو انتظا می طور پر ٹھیک کرنا ہو گا وگرنہ ملک کی معیشت نہیں چلے گی‘ مجھے شہباز شریف پر فخر ہے کہ انہوں نے مشکل فیصلے لیے ہیں‘ اس سیاست کا کوئی فائدہ نہیں جس میں اس ملک کا نقصان ہو‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ2017ء کے پے اسکیل پر ہو گا اور اس کے بعد ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم ہوں گے‘ اگر جون کے مہینے میں ہمارے پاس ہر قسم کا ایندھن موجود بھی ہوتا تو پھر بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی کیونکہ ہمارے پاس استعدادکار نامکمل تھی‘ آئندہ مالی سال میں ہم تاریخ رقم کریں گے اور برآمدات کو 35 ارب ڈالر تک لے کر جائیں‘ عمران خان خود بھی نااہل تھے اور ان کی ٹیم بھی نااہل تھی جبکہ خروبرد میں بھی ملوث تھے‘تاریخ کے 4 بڑے خسارے عمران خان نے کیے، گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے برخلاف فیول پر سبسڈی دی، عمران خان جعلی چیک کاٹ کر بھاگ جانے والی حرکت کی ہیمہنگائی کم کرنا بھی ہمارا ٹارگٹ ہے لیکن ہمارا پہلا ٹارگٹ ملک کو ایسی نہج سے ہٹانا ہے جہاں پر عمران خان چھوڑ کر گیا ہے، پہلا ٹارگٹ ہمارا یہ ہے کہ ہم سری لنکا کی صورتحال تک نہ چلے جائیںاور پہلا ٹاگٹ اپنے ملک کے فنانس کو بچانا ہے‘ ہمارا دوسرا ٹارگٹ اپنے غریب عوام کو ریلیف دینا ہے‘ ہم سارا سال یوٹیلیٹی اسٹورز پر سستا آٹا اور سستی چینی بیچتے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت پاکستان نے بجلی کے محکموں کو 1100 ارب روپے سے زیادہ سبسڈی دی ہے‘ ہمارے ہاں دنیا بھر کے مقابلے میں سستے ترین پاور پلانٹس کام کر رہے ہیں ، اس کے باوجود بجلی اتنی مہنگی کیوں پیدا ہو رہی ہے اس کی وجہ بدانتظامی، ہمارے بجلی کے ریٹ طے کرنے کے نظام میں کچھ سقم ہے، ہمارے ٹرانسمیشن لاسز ناقابل برداشت حد تک زیادہ ہیں اورگزشتہ 3، 4 سال کے دوران اس پر کوئی کام نہیں ہوا ہے‘ ہمارا بل کلیکشن کا ریٹ بہت کم ہے، جن لوگوں کو بجلی دے رہے ہیں ان سے بل نہیں لے پارہے‘ جب 1100ارب روپے سے 1600ارب روپے کا وفاق کا نقصان ہو جاتا ہے تو یہ نقصان ملک کو لے ڈوبے گا‘ یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ 1600ارب روپے ہمارے ملک کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران گیس کے شعبہ کے لیے بھی400ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے‘ صرف گزشتہ 2 سال کے دوران سردیوں میں ایس این جی پی ایل نے200 ارب روپے کا نقصان کیا ہے‘ ہم ایس ایس جی سی کے سسٹم سے 2.4 ارب ڈالرز کی گیس سالانہ ہوا میں اڑا دیتے ہیں ‘ہم اس طرح کے خرچے برداشت نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم 7004 ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے اور ہمارا نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار ارب روپے ہو جائے گا اور یہ کل رقم 9000 ارب روپے ہو جائے گی‘ اس میں سے ہم صوبوں کو 4000 ارب روپے دے دیں گے، ہمارے پاس 5 ہزار ارب روپے بچیں گے جس میں سے 4000 ارب روپے سود کی ادائیگی پر لگ جائیں گے اور ہمارے پاس صرف ایک ہزار ارب روپے بچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن 600ارب روپے کے خسارے سے کام شروع کرتے ہیں۔ یہاں سے ہمیں یہ ملک ملا ہے‘ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ ہم نے تقریباً100 ارب روپے بڑھایا ہے۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم نے ہر جگہ بجٹ میں کٹ لگانے کی کوشش کی ہے، وفاقی حکومت کے خرچے بھی بہت جگہ پر ہم نے کم کرنے کی کوشش کی ہے ‘ سابق فاٹا پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا پورا ارادہ ہے کہ ہم تمام بڑی کمپنیوں کو نجکاری کی طرف لے کر جائیںگے جن میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، سوئی گیس کی 2 بڑی تقسیم کار کمپنیاں، پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور دیگر شامل ہیں‘ ہم کچھ کمپنیوں کے شیئرز براہ راست مارکیٹ میں بیچیں گے ۔ علاوہ ازیں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملائیشیا اور انڈونیشیا سے خوردنی تیل کی درآمد کا عمل کو تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدا م سے خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کو روکا کیا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ کی زیرصدارت خوردنی تیل کی دستیابی سے متعلق کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔