مزید خبریں

سینیٹ :بلوچستان کے سینیٹر کا سندھ پر اپنے حصے کا پانی چوری کرنے کا الزام

اسلام آباد(آئی این پی،آن لائن)بلوچستا ن کے سینیٹرز نے سندھ پر اپنے حصے کاپانی چوری کرنے کاالزام لگاتے ہوئے کہاہے کہ پنجاب ہمارے حصے سے زیادہ پانی ہمیں دے رہاہے جبکہ سندھ 75فیصد ہماراپانی چوری کررہاہے،ہمارے بچے ان کے وجہ سے مررہے ہیں۔ جمعرات کوسینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔پانی کے کمی کے حوالے سے توجہ مبذول کرنے کے نوٹس پر سینیٹرمیاں رضا ربانی نے کہاکہ تونسہ بیراج سے گڈو کے درمیان سندھ کا پانی غائب ہورہاہے ۔ اس کی وجہ سے سندھ کے اندر پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے کاشتکار کا جینا دوبھر ہواہے ۔پانی کا مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے میں 2018سے زیر التوا ہے ۔سینیٹرمشتاق احمد نے کہاکہ صوبوں کو اپنے وسائل پر اختیار آئین نے دیا ہے مگر عملا اس طرح نہیں ہے ۔پانی کی قلت کی وجہ سے پاکستان ریگستان بن رہاہے۔ 2025تک پانی کل قلت ہوگی اور ہم بحران کی طرف جارہے ہیں ۔ پانی کے ذخائر تیزی لے ساتھ کم ہورہے ہیں۔ اس وقت ڈیموں میں 38فیصد کم پانی آرہاہے ۔ سندھ جنوبی پنجاب پانی کی قلت کا شکارہے ۔ سندھ 50اور جنوبی پنجاب 70فیصد پانی کی کمی کا شکار ہے ۔ پانی کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے کپاس کی جگہ گنا لگ رہاہے اور شوگر ملیں لگ رہی ہیں ۔پاکستان میں پانی کی سطح 100فیصد نیچے چلی گئی ہے ۔چالیس فیصد پانی زراعت میں ضائع کررہے ہیں۔ سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہاکہ نئے ڈیم نہیں بنائے جارہے ۔تحریک انصاف کے دور میں ڈیموں پر کام شروع کیا تھا ۔ ڈیم پاکستان کی لائف لائن ہے ۔ ڈیموں کی تعمیر کو روکا نہ جائے۔سینیٹردنیش کمار نے کہاکہ وزیر ایوان میں نہیں ہے بلوچستان کے عوام وہاں سے پانی پی رہے ہیں جہاں سے جانور پانی پیتے ہیں ۔ بلوچستان کا70فیصد پانی سندھ چوری کررہاہے سندھ پانی چور ہے ۔ ہمارے بچے ان کے وجہ سے مررہے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہ ظلم ہورہا ہے۔ انہوں نے اعظم نذیر تارڑجو مسکرارہے تھے کو مخاطب کرکے کہاکہ آپ کے لیے مذاق ہے ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔سندھ نے بلوچستان پر ظلم ڈھائے ہیں ۔ کل پانی کا 3.8فیصد پانی بلوچستان کے لیے مختص ہے ۔ سندھ کا ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کا پانی چوری کرکے فروخت کرتاہے ۔ پنجاب کے لوگ پانی زیادہ دے رہے ہیں جبکہ سندھ پانی چوری کر رہا ہے ۔سندھ سے جو پانی بلوچستان جاتا ہے اس سے 75فیصد پانی چوری ہوتا ہے ۔ثنا جمالی نے کہاکہ بلوچستان میں پینے کا پانی نہیں ہے ہمیں ہمارا پانی دیا جائے ۔ وزیر آبی وسائل خورشید شاہ نے کہاکہ ایوان میں گالیاں دینا ہمیں زیب نہیں دیتا ہے ۔ پانی کے مسئلے کوئی ایک صوبہ حل نہیں کرسکتا ہے ۔اٹارنی جنرل کی رپورٹ کس نے التوا میں ڈالی ۔سی سی آئی کی طرف کمیٹی بنی اس کا مجھے بھی نہیں پتہ کہاں ہے 1991کے ایکارڈ پر عمل ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیںایوان بالا نے مالی ذمہ داری اور قرضہ کی حد سے متعلق ترمیمی بل 2022کثرت رائے سے منظور کر لیا ،بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن اراکین نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا اور بل کو متعلقہ کمیٹی بھجوانے کا مطالبہ کیا۔جمعرات کے روز سینٹ اجلاس کے دوران وزیر برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے مالی ذمہ داری اور قرض حد ایکٹ 2005میں مذید ترمیم کا بل پیش کیا ،اس موقع پر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اس بل کی بعض شقوں سے متعلق تحفظات ہیں اوراس کو درست کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ اگر سینیٹ خزانہ کمیٹی کے چیئرمین نہیں ہیں تو اس کا آج ہی تقرر کرکے کل اس میں بل پر بحث کر لیں اس موقع پر وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہاکہ آج تک ہماری حکومت نے کوئی آرڈیننس جاری نہیں کیا جبکہ سابقہ حکومت نے 15منٹوں میں 36بل بغیر پیش کیے منظور کرائے اور یہ پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہاکہ یہ بہت اہم بل ہے ابھی بجٹ سر پر ہے اور خزانہ کمیٹی نہیں بنی ہے انہوں نے کہاکہ سینیٹر مشتاق کے تحفظات ہیں تو اس کو کمیٹی میں بھجوا دیں۔ وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا نے مالی ذمہ داری اور قرضے کی حد سے متعلق ترمیمی بل2022ایوان میں پیش کیا بل کی شق وار منظوری کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل کو منظور کر لیا ،بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن اراکین نے چیئرمین ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا اور نو،نو کے نعرے لگائے۔دریں اثنائایوان بالا نے رحمتہ اللعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے قیام کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے، بل کی منظوری کے موقع پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے آخری روز بل پیش کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اراکین کو بلز پر بحث کا موقع دینے کا مطالبہ کیا۔جمعرات کے روز سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر رانا تنویر احمد خان نے بل پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس بل کو مذید بہتر بنانے کیلییاقدامات کریں گے اس بل پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے ہم اس میں تعطل ختم کرنا چاہتے ہیں اس بل پر بہتری کے لییپوزیشن کی تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا جائیگا ،اس موقع پر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ حکومت ہمیشہ ایسے وقت میں بل پیش کرتی ہے جب ان کے پاس مذید وقت نہ ہو اور وہ بندوق کی نوک پر ایوان سے قانون سازی کراتی ہے جو کہ درست نہیں ہے انہوںنے مطالبہ کیا کہ مستقبل میں ایسے بل پیش نہ کیے جائیں ،اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کی جانب سے بل کی شق وار منظوری کے بعد بل کو منظور کر لیا گیا۔قبل ازیںجمعرات کے روز سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ یہ خوش آئند بات ہے کہ نیب کے لسٹ میں ایسا کوئی سیاستدان نہیں ہے کہ اس نے پلی بارگین کی ہو، انہوں نے کہاکہ نیب کے تمام حسابات کا آڈٹ ہوتا ہے اور اس حوالے سے دیکھا جائے گا ،سینیٹر اعظم سواتی نے کہاکہ نیب کو جو بھی رقم موصول ہوئی ہے وہ متاثرین کو ادا کی جائے،کیا موجودہ حکومت نیب کو ختم کرنے جارہی ہے جس پر وزیر قانون نے کہاکہ جو لسٹ دی گئی ہے یہ ان لوگوں کی فہرست ہے جن میں پلی بارگین کے زریعے رقم واپس کی ہے،جو بڑے چور ہیں وہ بھی نیب کے اندر آئیں گے،اس ملک کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس کا حساب لیا جائے گا؛۔