مزید خبریں

مذہب اور انسانیت

انسان کی اصل انسانیت بلکہ اس کی حقیقی عظمت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ حسّی خواہشات اور مادّی تمنائوں کی قوت کو اپنے اندر محسوس کرنے کے باوجود اْنھیں اپنے آپ پر غالب نہ ہونے دے بلکہ اْنھیں اخلاقی احساسات کا پابند بنا کر تعمیر وترقی کی راہ پر لگائے۔ انسانیت درحقیقت انسان کی اپنی حیوانیت پر اس کی اخلاقی حس اور اس کی رْوح کی فتح کا دوسرا نام ہے اور یہ فتح و کامرانی مذہبی تعلیمات ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
مذہب نے اخلاقی احساس کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ اس کی پرورش کا بھی انتظام کیا ہے۔ اس احساس کے تحت انسان خاکی ہونے کے باوجود وطن کا پرستار نہیں بنتا بلکہ انسانیت کی وسیع تر برادری سے رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے۔ اسی احساس کی بدولت وہ مادی سود و زیاں سے بے پروا ہوکر زندگی کے بیش تر معاملات اخلاقی بنیادوں پر طے کرتا ہے۔ وہ اسی احساس کے تحت والدین کی عزّت و تکریم کرتا ہے۔ کمزوروں اور ناداروں پر دست ِ شفقت رکھتا ہے۔ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے، حالانکہ مادّی نقطۂ نظر سے یہ سراسر گھاٹے کے سودے ہیں۔
اسی احساس سے اس کے اندر استغناء، تحمل، بْردباری، ایثار جیسی بلند واعلیٰ صفات پرورش پاتی ہیں۔ پھر یہی احساس اس کے اندر اخلاص اور بے لوثی کی ایسی متاعِ عظیم پیدا کرتا ہے، جس کی رْو سے وہ اپنی ساری خدمات اور قربانیوں کے بدلے میں کسی دْنیوی فائدے یا شہرت یا عزّت کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ سارے کام خدا کی رضا جوئی کے مقدس جذبے سے کرتا ہے۔ خدا کی رضا کے لیے جینے اور مرنے کا عزم انسان کی پوری زندگی کو خداترسی کا نمونہ بناتا ہے اور انسان زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام کو بڑے اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔ اس مقدس جذبے کی موجودگی انسان کے اندر دو رنگی اور منافقت ختم کردیتی ہے، اور انسان سراپا اخلاص بن جاتا ہے۔
مذہب، مذہبی احساسات و معتقدات انسان کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہیں۔ مگر افسوس کہ انسان ان کی اصل قدر وقیمت سے ناآشنا ہوتا جارہا ہے۔ چونکہ مادّی ذرائع ووسائل کی فراوانی نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے، اس لیے وہ اْس متاعِ عزیز سے غافل ہوگیا ہے، جس سے اس کی انسانیت وابستہ ہے۔
ہوا اور روشنی ہماری مادّی زندگی کے لیے جس قدر ضروری ہیں، اس سے سب واقف ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ان کی پوری طرح قدر نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمیں بغیر کسی تکلیف اور محنت کے میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح مذہب جو انسانیت کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، اور جس پر اس کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا سارا انحصار ہے، ہم اس کی غیرمعمولی اہمیت پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جس طرح ہوا اور روشنی کی اصل قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب انسان اس سے محروم ہوجائے۔ اسی طرح مذہب کی حقیقی قدر وقیمت کا انسانیت کو اس وقت اندازہ ہوگا، جب انسان اس گنجِ گراں مایہ سے بالکل تہی دست ہوجائے گا۔ اس وقت اْسے معلوم ہوگا کہ اس محرومی سے وہ درندگی کے کس پست مقام پر پہنچ چکا ہے۔
حیوانوں میں تو بعض ایسی جبلّتیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے وہ مل کر زندگی بسر کرلیتے ہیں، مگر انسان میں یہ جبلّتیں بڑی کمزور ہیں اور ان کے مقابلے میں خود غرضی کے جذبات زیادہ طاقتور ہیں۔ اس لیے اس کے اندر اگر اخلاقی اور مذہبی احساسات باقی نہ رہے، تو وہ درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوگا۔ خدا وہ دن نہ دکھائے کہ انسان مذہب کے شیریں اور حیات آفریں عنصر سے محروم ہوکر درندہ بن جائے، کیونکہ اگر اس مقام پر پہنچ گیا تو پھر دْنیا میں خیر وبھلائی کا نام و نشان نہ رہے گا۔