مزید خبریں

محتاط گفتگو

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو جن اہم صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں لسان کے ساتھ بیان و ابلاغ، نصیحت اور کلمۂ حق کا اظہار کرنے کی نعمتیں شامل ہیں۔ قول بمعنی گفتگو اور قول بمعنی وعدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انبیاے کرام کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ انھیں اپنی قوم کی زبان میں پیغام پہنچانے اور ابلاغ سے نوازا گیا، اور سیدنا موسٰی ؑ کی دعا سے قرآن ہر مسلمان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب سے نہ صرف حق کے لیے سینے کو کشادہ کرنے اور آسانی پیدا کرنے کی دعا کرے، بلکہ ساتھ ہی یہ بات بھی کہے کہ اس کی زبان کی گرہ کو دْور کردیا جائے۔ لیکن گرہ دْور کرنے اور زبان درازی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نبی کریمؐ نے جس قبیلے میں بچپن گزارا وہ اپنی فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھا۔ اسی لیے آپؐ جب خطاب فرماتے تو مختصر ترین الفاظ میں وضاحت کے ساتھ اپنے مخاطب کی صلاحیت کے لحاظ سے اظہارِ خیال فرماتے۔ آپؐ کے تمام خطبات مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ اس لیے آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے ایک داعی کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ حق کا ابلاغ کرتے وقت بات غیرضروری طور پر طولانی نہ ہو۔
قرآن کریم نے انسانوں سے گفتگو کرنے کے حوالے سے ہدایت فرمائی ہے کہ انسانوں سے بھلی بات کہنا۔ (البقرہ :83)، بھلی بات کہنا اور حق کی دعوت دینا انبیاے کرام کا اْسوہ ہے۔ اس کام میں آسان زبان کا استعمال ہمیشہ میٹھا بول اور زبان کی بے احتیاطیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہر داعی کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے غلط استعمال پر نبی کریمؐ نے مختلف مواقع پر اْمت مسلمہ کو متنبہ فرمایا۔ مشہور حدیث ہے کہ جس نے دو چیزوں کی احتیاط کا وعدہ کیا، یعنی زبان اور شرم گاہ، تو صادق و امینؐ اس سے جنت کا وعدہ فرماتے ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں میں سب سے زیادہ مہلک چیز غیبت ہے۔ قرآن کریم نے سورۂ الحجرات میں اس طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک ایسی مثال سے بات کو سمجھایا جسے کوئی صاحبِ ایمان بھول نہیں سکتا، یعنی غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے مْردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ ایک حدیث میں نبیؐ نے یہ بات بھی فرما دی: زانی کی توبہ تو قبول ہوسکتی ہے لیکن غیبت کرنے والے کی توبہ کبھی قبول نہیں ہوسکتی جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہے، اسے معاف نہ کردے۔
زبان کی بے احتیاطیوں میںجھوٹی شہادت دینا حدیث پاک کی روشنی میں شرک کے برابر ہے۔ اسی طرح کسی کی تضحیک کرنا، نام بگاڑنا یا چغلی کھانا بھی زبان کی بے احتیاطیوں میں شامل ہیں۔ سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: چغلی کھانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم) زبان سے غیرمہذب بات نکالنا، فحش گوئی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ سیدنا ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: سب سے وزنی چیز جو قیامت میں میزان میں رکھی جائے گی مومن کا حسنِ اخلاق ہے اور اللہ اْس شخص سے بْغض رکھتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا ہے اور بدزبانی کرتا ہے۔ (ترمذی)
اسی حوالے سے مذاق میں غلط بیانی کرنا اور جھوٹ بولنا بھی شامل ہے کیونکہ جب ایسا کرنا ایک شخص کی عادت بن جاتا ہے تو پھر اس کے سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کی جاسکتی۔ ایک حدیث صحیح میں منافق کی جو چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے تین کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہے، یعنی جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اْتر آئے۔ (عن عبداللہ ابن عمر، بخاری و مسلم)
ایک داعی کے لیے بہت ضروری ہے کہ جہاں وہ زبان کی ان بے احتیاطیوں سے بچے وہاں وہ مثبت طور پر زبان کی اچھائیوں کو اختیار کرے جن میں سب سے پہلی بات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعوت دینے سے قبل اس کی حمد وتوصیف کے ساتھ یہ دعا کرنا کہ وہ حق بات کہنے کی توفیق دے۔ پھر بات کو اچھے انداز سے مختصر ترین پیرایے میں سادہ اور پْراثر الفاظ میں ادا کرنا دعوت کی حکمت کے اجزا ہیں۔
زورِ بیان اور زورِ تحریرکا مطلب نہ طوالت ہے، نہ مشکل الفاظ کا استعمال کرنا، نہ مقفّع و مسجّع گفتگو کرنا، بلکہ مخاطب کی صلاحیت کے مطابق اچھے انداز میں اپنی بات کا پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی نسخہ ایسا نہیں ہے جس کے استعمال سے یہ صلاحیت ایک شخص میں پیدا ہوجائے۔ یہ خصوصیت صرف خلوصِ نیت سے، اللہ کو خوش کرنے کے جذبے کے ساتھ مسلسل کوشش ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ غیرضروری گفتگو سے احتراز سنت ہے اور جو شخص بھی دعوت الی اللہ کا کام کر رہا ہو، اسے الفاظ کے انتخاب اور استعمال میں فکر وعقل کا استعمال کرنے کے بعد ہی کوئی بات کرنی چاہیے۔ ہروقت اور ہر بات پر بولنا، نہ حکمت کا تقاضا ہے، نہ دعوت کے لیے مفید۔ نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو خاموش رہا، وہ سلامت رہا، اور جو سلامت رہا نجات پا گیا‘‘۔ (بخاری) اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ چپ سادھ لیں اور صرف کانوں کا استعمال کریں۔ اس کا واضح مفہوم قرآن کی اس آیت کی تشریح ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ حق بات کہنا۔ (النساء: 9)
زمین پر ہونے والے بہت سے فسادات کی جڑ زبان ہی ہوتی ہے۔ زبان کے استعمال ہی سے ایک شخص دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کے غلط استعمال سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ صحیح استعمال کے نتیجے میں ذمے داری کا اقرار کرکے رشتۂ نکاح میں جڑ جاتا ہے اور غیر ضروری اور نامناسب استعمال کر کے رشتے کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے خلاف تمسخر اور بے عزتی کی باتیں کرتی ہے تو بعض اوقات نوبت جنگ تک آجاتی ہے۔ اسی کا صحیح استعمال دلوں کو جوڑتا ہے، رشتوں کا احترام سکھاتا ہے، معاشرے میں محبت اور امن پیدا کرتا ہے۔ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے یوں وابستہ کردیتا ہے جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو۔
اسی بنا پر نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ زبان سے ایسی بات نکالنا جس سے اللہ کے بندوں کو تکلیف ہو، دعوت کے مقاصد کے منافی ہے لیکن ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حق کا اظہار کرنا، دین کی دعوت دینے کے لیے موعظۂ حسنہ کا اختیار کرنا، حکمت کے ساتھ اپنی بات کا سمجھانا، ایک مومن اور تحریکی کارکن کے لیے فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی بات دل میں اْترنے والی ہونی چاہیے، نہ کہ انسانوں کو دْور کرنے والی۔