مزید خبریں

مذہبی جماعتوں کو روکنے کے لئے امریکا الطاف حسین کو واپس لانا چاہتا ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) مذہبی جماعتوں کو روکنے کے لیے امریکا الطاف حسین کو واپس لانا چاہتا ہے‘ بلدیاتی نظام کے لیے نئے روپ میں بانی ایم کیو ایم کی انٹری ممکن ہے‘ زرداری سہولت کاری کررہے ہیں‘جماعت اسلامی نے کراچی کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی ہے اس کی وجہ سے جماعت اسلامی کوکچلا نہیں جاسکتا‘ الطاف حسین پر مقدمات لندن میں ختم ہوئے ہیں پاکستان میں نہیں۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اسامہ بن رضی، کرنل آفریدی،پی پی پی کے رہنما این ڈی خان، ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی اور سابق پارلیمانی لیڈر فردوس شمیم نقوی، صوبائی وزیر سعید غنی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’کیا الطاف حسین کو پاکستان لانے کی سازش ہو رہی ہے؟‘‘ اسامہ بن رضی نے کہا کہ ؎کراچی میں الطاف حسین کی آمد کی گنجائش نکالی جا رہی ہے لیکن الطاف حسین خود بھی پاکستان نہیں آنا چاہتے ہیں‘ ایک طویل عرصے سے ان کے امریکی حمایت یافتہ لوگ ان کو کسی نہ کسی صورت ملکی سیاست میں داخل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور اب آصف علی زر داری کو میدان میں اُتارا گیا ہے تاکہ کراچی میں اسلامی پارٹیوںکو انتخابات جیتنے سے روکا جا سکے‘چند سال قبل بھی الطاف حسین ازخود پاکستان میں موجود نہیں تھے لیکن ان کے امریکی حمایت یافتہ لوگوں نے ا لطاف کو ایسا بنا دیا تھا کہ وہ پاکستان میں ہر وقت موجود نظر آتے تھے‘ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا اسپیکر ایک مرتبہ پھر کھول دیا جائے گا اور آصف علی زرداری کو ان کے سہولت کار کے طور پر سامنے رکھا جائے گا‘ جماعت اسلامی اُس وقت بھی کراچی میں زندہ تھی جب الطاف حسین کو پنڈی سے کراچی میں جماعت اسلامی کو کچلنے کا ٹاسک دیا گیا تھا‘ پوری حکومت ایم کیو ایم کے ساتھ تھی‘ اُس وقت کالی آندھی اور سرخ اندھیروں میں بھی جماعت اسلامی کا دفتر ادارئہ نورِ حق کل بھی کھلا تھا اور آج بھی کھلاہے‘ اس دفتر سے کراچی کے حقوق کی جدِو جُہد جاری ہے لیکن برسوں سے ایم کیو ایم کے ’’نائن زیرو‘‘ میں گُھپ اندھیر ہے‘ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کو برباد کرنے والی پارٹیوں سے اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ کرنل آفریدینے کہا کہ الطاف حسین کی براہ راست کراچی میں کسی بھی طرح کی سرگرمیوں کا کوئی امکان نہیں ہے‘ ان کے مقدمات پاکستان میں نہیں لندن میں ختم ہو ئے ہیں۔ این ڈی خان نے کہا کہ الطاف حسین اب کہانی بن چکے ہیں اور کہانی کو حقیقت میں ڈھالنے میں بہت وقت لگتا ہے‘الطاف حسین اب لندن کے ہو گئے ہیں اس لیے ان کو اب لندن کی خدمت کرنی چاہیے‘ کراچی میں پی پی پی حکومت کو مزید فعل ہو نے کی ضرورت ہے‘ ماضی میں سیاسی وجوہات کی بنا پر کراچی میں پی پی پی کو کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا ہے ۔کراچی میں الطاف حسین نے جوکچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے ‘ اب ان کی کراچی میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ میں اور میرے ساتھی پاکستان کے ہیں اور یہاں پر ہم از خود کام کر رہے ہیں اور یہ بات میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ الطاف حسین کو پاکستان میں لانے کی سازش کہاں تک کامیابی سے ہو گئی لیکن جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ بیٹھ کر شہر کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں کراچی والوں نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا تھا‘ کسی اور کی اب یہاں کوئی گنجائش نہیں لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ جب تک حلقہ بندیاں درست نہ کی جائیں اور بلدیاتی نظام کو مضبوط نہ کیا جائے تب تک الیکشن کو ملتوی کیا جانا چاہیے‘سندھ حکومت لوکل گورنمنٹ کے تمام ادارے خود چلا رہی ہے‘ حتیٰ کہ کچرا چننے والا کام مقامی سطح کا ہے، کیا وہ بھی صوبائی حکومت کرے گی؟ قانون میں صاف بتایا جائے کہ میئر کے اختیارات میں ٹاؤن ہوں گے یا ضلعے؟ میئر کا الیکشن براہ راست ہونا چاہیے اور حلقہ بندیوں کو ٹھیک کرانا ضروری ہے، ورنہ الیکشن کروانے کا فائدہ ہی نہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اب جمہوریت کا دور ہے جس سے ہر طرح کی مشکل کا خاتمہ ہو جاتا ہیں ‘ پی پی پی کراچی اور سند ھ کی پارٹی ہے اور اس کو ہی ہر سطح پر کامیابی ملے گی‘ عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے فیصلے میں سندھ کے بلدیاتی قانون کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا، صرف اس میں کچھ ترامیم کرنے کو کہا تھا۔ اس پر ہم نے عمل کیا ہے۔ اپوزیشن اگر الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہے تو یہ ان کی مرضی ہے۔