مزید خبریں

خراب معاشی صورتحال: کابینہ کے اخراجات کم نہ کرنے پر عوام حیران

کراچی (تجزیاتی رپوٹ: محمد انور) پاکستان میں اپریل کے آغاز میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو اقتصادی محاذ پر اس وقت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے ملک کا بڑھتا ہوا تجارتی و جاری کھاتوں کا خسارہ، تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر اور انہی وجوہات کی بنا پر ملک میں مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافے کے باوجود عوام کو اس بات پر حیرت ہے کہ حکومت اپنے اور اپنی کابینہ کے جاری غیر معمولی و پرتعیش اخراجات میں کمی کرنے پر غور تک نہیں کررہی یا وہ ایسا کرنے کی جرأت بھی نہیں رکھتی۔ قوم کو حیرت ہے کہ سرکاری افسران سے گاڑیوں کی سہولت یا ٹرانسپورٹ الاؤنس واپس لینے کے فیصلے کے باوجود کابینہ کے ارکان کو دی جانے والی کوئی سہولت بھی واپس نہیں لے رہی ہے اور نہ ہی کابینہ کے اراکین کی تعداد میں کمی کرنے پر غور کر رہی ہے جس سے لوگوں میں یہ تاثر مستحکم ہو رہا ہے کہ جمہوریت کی دعویدار اس حکومت کا جمہور کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خیال رہے کہ آئی ایم ایف سمیت کسی بھی عالمی ادارے کی جانب سے قرض کے حصول کیلیے حکومتی اخراجات اور کابینہ کے اراکین کی تعداد کم کرنے کی شرط کے بجائے پیٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شرط عاید کی گئی ہے جس کا عوام سے براہ راست تعلق ہے جبکہ دوسری طرف وزرا اپنے ملک کی معاشی حالات کو نظر انداز کیے بغیر بیرون ممالک کے دورں میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ اپریل میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد سے وزیراعظم شہباز شریف ان کی کابینہ کے اراکین مسلسل غیرملکی ملکی دورے کرچکے ہیں جبکہ وزیر خارجہ و پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اب بھی غیر ملکی دوروں کے سرکاری اخراجات پر مزے لوٹ رہے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال کی ابتری پر عوام کی حکمرانوں سے توقع ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے غیرملکی دوروں کو منسوخ اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کردیں گے۔ یہ بھی خیال رہے کہ آئندہ مالی سال 2022-23 کا بجٹ حکومت کو اعلان کے مطابق 10 جون کو پیش کرنا ہے جو حکومت کیلیے ایک چیلنج ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافے سے اشیا خور و نوش سمیت تمام چیزوں کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دودھ کے نرخ بھی 150 سے بڑھ کر 170 روپے فی لیٹر ہوچکے ہیں۔