اسلام آباد( نمائندہ جسارت)پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے تمام سابق اور موجودہ ڈائریکٹرز، ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات ایک ماہ میں طلب کر لیں۔ چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نیب کے قائم مقام چیئرمین ظاہر شاہ بھی پیش ہوئے۔دوران اجلاس پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ایڈن ہائوسنگ اسکیم سے پلی بارگین کی تفصیلات طلب کیں، جس پر قائم مقام چیئرمین نیب نے بتایا کہ ایڈن ہاوسنگ اسکیم سے پلی بارگین کی منظوری گزشتہ روز عدالت سے لی گئی تھی۔ سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ نیب کا دعویٰ ہے کہ اب تک 8کھرب 20ارب روپے کی ریکوریاں کی گئیں، وزارت خزانہ کے مطابق اب تک صرف 15ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نور عالم نے کہا کہ جو رقم نیب کے پاس آئے گی اس کا آڈٹ ضرور کیا جائے گا، نیب جو بھی وصولیاں کرتا ہے وہ قومی خزانے میں جمع ہونی چاہییں، جو ادارہ حکومت کا ایک پیسہ بھی لے گا اس کا آڈٹ ضرور ہوگا۔قائم مقام چیئرمین نیب نے شرکا کو بتایا کہ نیب ایک روپیہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، نیب کا ایک ہی اکائونٹ ہے جس میں تمام وصولیوں کی رقم رکھی جاتی ہے۔کمیٹی نے نیب وصولیوں اور رقوم کی تقسیم کا مکمل آڈٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے بینک اکائونٹ کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔نیب کی کارروائیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقوم کی تفصیلات بتاتے ہوئے نیب کے چیئرمین ظاہر شاہ نے کہا کہ کراچی بحریہ ٹاون میں اربوں روپے کا ناجائز فائدہ اسپانسرز کو پہنچایا گیا، نیب نے عدالت عظمیٰ کے توسط سے بحریہ ٹائون سے اربوں روپے برآمد کیے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر سے نیب نے کروڑوں روپے کی چوری شدہ گندم برآمد کی، کچھ وصولیاں بلاواسطہ کچھ بالواسطہ ہوتی ہیں، آڈیٹر جنرل جب بھی نیب کے اکاونٹ کا آڈٹ کرنا چاہے کر سکتے ہیں۔اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے نیب قوانین میں تبدیلی پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ نیب قانون میں جو تبدیلیاں کی جارہی ہیں، ان کے بعد نیب کی حیثیت کیا ہوگی۔شبلی فراز نے کہا کہ کیا نیب آزادانہ طور پر کام کر سکے گا جس پرقائم مقام چیئرمین نیب نے بتایا کہ نیب کو صرف قانون پر عمل کرنا ہے، قانون سازی پر سوال اٹھانے کا نیب کو کوئی اختیار نہیں ہے۔چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نے شبلی فراز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پر بات کرنی ہے تو سینیٹ یا قومی اسمبلی میں کریں، اداروں کا کام کرپشن کو روکنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو حکومت میں نہیں رہا اس سے سیاسی انتقام لیا جائے۔دوران اجلاس پی اے سی نے نیب افسران کی تنخواہوں، مراعات اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات طلب فراہم کرنے کا بھی حکم دے دیا اور میڈیا کے ذریعے پبلک کرانے کی بھی ہدایت کی۔ چیئرمین اکائونٹس کمیٹی نے نیب کو ہدایت دی کہ جو سوالنامہ آپ دیگر ملزمان کو بھجواتے ہیں وہی اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو بھی بھیجیں۔نور عالم کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین نیب کی گردن میں سریا تھا، قائم مقام چیئرمین شریف آدمی لگتے ہیں۔انہوں نے نیب کی انکوائریز سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص پر الزام ثابت نہیں ہوتا کیا کبھی آپ نے خط لکھ کر اس سے معافی مانگی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے خلاف نیب میں کیس ابھی تک چل رہا ہے تو مجھے بتائیں تو میں پی اے سی کے آج کے اجلاس کی صدارت سے ہٹ جاتا ہوں۔قائم مقام چیئرمین نیب نے کہا کہ مجھے زبانی یاد نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی تک آپ کے خلاف انکوائری بند نہیں ہوئی۔نور عالم خان کا کہنا تھا کہ بتائیں میرے خلاف کیس کہاں تک پہنچا ہے؟ اگر میری زمین 200ایکڑ سے 230ایکڑ ہوگئی ہے تو وہ بھی بتایے گا، اگر 200ایکڑ سے کم ہوکر 150ایکڑ تک پہنچی ہے تو وہ بھی بتائیے گا۔نور عالم خان نے کہا کہ میرے کم ہونے والے 50 ایکڑ کا حساب بھی نیب پورا کرکے دے۔چیئرمین کمیٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ سر، اگر آپ بے قصور نکلے تو آپ کو معذرت کا خط ضرور لکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ جو بھی شخص بے قصور ہوگا تو ان سب کو بھی معذرت کا لیٹر لکھیں گے۔شبلی فراز نے کہا کہ اگر چیئرمین پی اے سی کے خلاف کیس بند نہیں ہوا تو چیئرمین کو آج کے اجلاس کی صدارت سے اخلاقی طور پر الگ ہونا چاہیے۔ چیئرمین پی اے سی نے پی ٹی آئی کے رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شبلی صاحب!نیب آپ کے خلاف فائل رکھ دیتا ہے تاکہ آپ کو بے عزت کر سکے۔پی اے سی نے ایک ماہ بعد7جولائی کو احکامات پر عملدرآمد کے ریکارڈ سمیت نیب حکام کو دوبارہ طلب کرلیا۔اجلاس کے دوران چیئرمین نور عالم خان اور ڈی جی نیب سندھ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ڈی جی نیب نے کہا کہ آپ نے نیب حکام کے لیے جو سوالنامہ بھرنے کا حکم دیا ہے وہ تو ملزمان سے تحقیقات کے لیے ہوتا ہے، افسران کی ذلت ہوگی اور ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر تو آپ پرفارما بھروانے سے پہلے نیب کے سارے افسران کو ملزم ڈکلیئر کردیں۔چیئرمین پی اے سی نے جواب میں کہا کہ اچھا تو آپ کو اثاثے ڈیکلیئر کرانے کے حکم پر تکلیف ہو رہی ہے؟نیب یہ پرفارما سیاست دان کو بھرنے کے لیے بھی کہتا ہے، کیا ان کی عزت نہیں؟ اگر نیب ہمارا احتساب کر سکتا ہے تو پھر نیب کے افسران کو بھی جواب دینا ہوگا،اب احتساب کا بھی احتساب ہوگا، نیب حکام کے زیر استعمال گاڑیوں اور مراعات کی تفصیلات بھی دی جائیں، نیب حکام کا تحفہ قبول کرنا بھی کرپشن ہے، کوئی افسر اخلاقی طور پر اچھا نہیں ہے تو اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس 7 اب جولائی کو دوبارہ ہو گا۔