مزید خبریں

۔الیکٹر ک ٹیرف میں 7.90 روپے اور لوڈ شیڈنگ میں 12سے 15گھنٹے اضافہ ؟Kـ

K ۔الیکٹرک ٹیرف میں 7.90 روپے اور لوڈ شیڈنگ میں 12سے 15گھنٹے اضافہ ؟کر دیا گیا ہے اور پورا شہر ریاست کی بالا دستی سے محروم ہو تا جارہا ہے۔حکومتی رٹ صرف عوام پر مہنگائی کے نفاذ سے آگے نظر نہیں آرہی ہے ۔عوام کو ہر طرح کی سہولت سے محروم کرنے کا سلسلہ جاری اور پوری ریاست صرف اور صرف آئی ایم ایف کی نظر آرہی ہے ۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے اگلے بجٹ سال 2022-23 کے لیے نیپرا کی جانب سے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7.90 روپے فی یونٹ کے غیر قانونی اضافے کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام کاروباری لاگت میں اضافے کا باعث بننے کے وجہ سے صنعتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا اور مہنگائی کا ایک اور سیلاب امڈ آئے گا کیونکہ بجلی کے بلوں کو مہنگا اور صارفین کے لیے ناقابل برداشت بنانے کے ساتھ ساتھ بیس ٹیرف میں یہ بے تحاشہ اضافہ ہر گھر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے تمام گھریلو سامان کی قیمتوں کو بڑھا دے گا۔
یہ سب کچھ جو ہو رہاہے اس کی آئینی حیثیت کیاہے اس بارے میں معلوم ہو اہے کہ بیس ٹیرف میں اضافے کا فیصلہ واضح طور پر غیر قانونی ہے جو نیپرا کے قواعد و ضوابط کے برخلاف ہے کیونکہ ٹیرف میں کسی بھی اضافے کا تعین عوامی سماعت کے بعد ہی کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا اوربذات خود بیس ٹیرف بڑھانے کا فیصلہ کیا جو کہ ناقابل قبول ہے۔
7.90 روپے فی یونٹ اضافے سے بنیادی ٹیرف 16.51 روپے فی یونٹ کے موجودہ بیس ٹیرف سے بڑھ کر 24.41 روپے فی یونٹ ہو جائے گا جو نہ صرف صنعتوں کی بقا کو داؤ پر لگائے گا بلکہ غریب عوام کی زندگیاں مزید اجیرن کردے گا جو مہنگائی کے موجودہ دور میں بجلی کے بلوں میں مزید اضافے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بین الاقوامی منڈیوں میں ایندھن کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے ہر ماہ بجلی کے صارفین فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پہلے ہی 4 سے 6 روپے فی یونٹ اضافی رقم ادا کر رہے ہیں
اس پوری صورتحال سے معلوم ہو تا ہے کہ ملک کا گورننس اوراقتصادی ماڈل خامیوں اور تضادات کا مجموعہ ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یہ ماڈل زیادہ دیر تک نہیں چلے گا جسے بدلنا ضروری ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اقتصادی انصاف کا نام و نشان تک نہیں ہے جس سے ملک مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔ملک میں تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری بہت کم ہے جبکہ کوئی سماجی شعبہ پرفارم نہیں کر رہا ہے۔ مسلسل قرضوں، گورننس اور سیاسی استحکام کے فقدان، امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال،نظام انصاف کی صورتحال، ٹیکس کے ناکارہ نظام ،کرپشن، اور ناقص احتساب نے ملک کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔ ملکی نظام اشرافیہ کا خادم بنا ہوا ہے اور ان کے اختیار اور وسائل میں مسلسل اضافے کا سبب بنا ہوا ہے جس کی قیمت عوام سے وصول کی جاتی ہے جبکہ اس چھوٹے سے طبقہ کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔اشرافیہ نوازی نے غربت میں زبردست اضافہ کر کے عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ ملک کو کئی دہائیوں سے اس طرح چلایا جا رہا ہے کہ یہاں سے نہ صرف سرمایہ مسلسل فرار ہو رہا ہے بلکہ ماہرین سمیت جس کو موقع ملتا ہے وہ کسی دوسرے ملک چلا جاتا ہے
بیس ٹیرف میں 7.90 روپے فی یونٹ اضافے سے تیار اشیاء بین الاقوامی منڈیوں میں غیر مسابقتی اور مقامی منڈیوں میں ناقابل برداشت ہو جائیں گی۔ معیشت اور کاروبار تب ہی پروان چڑھیں گے جب بجلی، گیس اور پانی کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کرکے کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کیا جائے گا۔
K ۔ الیکٹرک کا کہنا ہے کہ اضافہ بعض ٹریڈ ایسوسی ایشنز سے منسوب کیا گیا ہے لیکن اپیل کا مواد واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا مسودہ کے الیکٹرک کی سرپرستی میں تیار کیا گیا ہے جبکہ مذکورہ اپیل میں موجود مواد میں ہر چیز کا غلط حوالہ ہے۔ کے الیکٹرک کو صرف آر ایل این جی میسر ہونے کا دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ آج تک 73 ایم ایم سی ایف ڈی گیس قدرتی وسائل سے آتی ہے جبکہ بقیہ آر ایل این جی ہے۔ ایف سی اے یا کسی دوسرے اعداد و شمار کے تحت 17 فیصد سرچارج کا اعلان خالصتاً نیپرا کا کام ہے لہٰذا ریگولیٹر فیصلہ کرے گا کہ کس قسم کا فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج منظور کرنا ہے اور حکومت سے سبسڈی کے طور پر کیا لیا جانا چاہیے۔ کے الیکٹرک کو موجودہ صورتحال پر بجا طور پر تشویش ہے کیونکہ شرح سود بہت زیادہ ہو گئی ہے اور ایسی صورت حال میں جب حکومت کی طرف سے سبسڈی ادائیگیوں میں تاخیر ہوگی تو کے الیکٹرک کو یونٹ کی بنیادپر مالی اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں جس میں شرح سود میں اضافے کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ قدرتی گیس خریدتے ہیں تو بل قدرتی گیس کا ہوگا اور انہیں وفاقی حکومت سے سبسڈی کی وصولی کے لیے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔مزید برآں نیپرا مذکورہ اپیل کی قانونی حیثیت کا جائزہ لے اور معلوم کرے کہ اس کے پیچھے اصل میں کون ہے۔ مہنگی بجلی کے قابل گریز بوجھ ڈالنے کے خلاف پرزور التجا کی جس سے صنعتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوں گی، عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اور معیشت کو مزید بحرانوں میں دھکیل دیا جائے گا۔
حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صنعت سازی کا شعبہ اور دیگر تمام شعبے اس سے زیادہ ٹیرف بوجھ برداشت نہیں کر سکتے جو ان کے حریف ادا کر رہے ہیں اور یقینی طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر کے مزید دباؤ ڈالنے کا ہرگزیہ مناسب وقت نہیں کیونکہ معیشت پہلے سے ہی سنگین بحرانوں کا شکار ہے۔ عوام بمشکل اپنی روزی روٹی کما پا رہے ہیں جبکہ صنعتیں کسی نہ کسی طرح چلنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مشکل وقت میں نیپرا پہلے سے بوجھ تلے دبے شہریوں اور تاجر برادری کو ریلیف دینے کے بجائے کاروبار دشمن اور عوام دشمن اقدام کر رہا ہے۔ہم وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نیپرا کے غیر قانونی اقدامات کا نوٹس لیں اور نیپرا کو قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کی سختی سے ہدایات جاری کریں جو ریگولیٹر کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنے اور عوامی سماعت کے بعد ہی ٹیرف میں اضافے کو نافذ کرنے کا پابندکرتا ہے۔شہر کے کئی علاقوں میں کے الیکٹرک کی جانب سے لوڈ شیڈنگ میں اضافے پرعوام نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کو بنیادی طور پر 400 میگاواٹ کمی کا سامنا ہے کیونکہ بن قاسم پاور اسٹیشن 3 اس وقت صرف 200 میگاواٹ سے 350 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ اس کی مجموعی پیداواری صلاحیت 900 میگاواٹ ہے حالانکہ بن قاسم پاور اسٹیشن 3 میں نصب مشینوں کی ٹیوننگ اور مرمت کا کام اس وقت جاری ہے لیکن اس کو تیز کرنا ہوگا اور اسے کم سے کم وقت میں مکمل کرنا ہو گا تاکہ پریشان حال کراچی والوں کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔Kالیکٹرک کا یہ بھی کما ل ہے کہ مشینوں کی ٹیوننگ اور مرمت کا کام اور لائنوں کی صفائی کے لیے شٹ ڈاؤن صرف گرمیوں میں ہی جاتی ہے
کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر سلمان اسلم نے حکومت کی جانب سے کراچی کے صنعتی اور رہائشی صارفین کے لیے پاور پلانٹس کو تیل اور مہنگی آر ایل این جی کی فراہمی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی گیس جس کی قیمت 857 فی ایم ایم بی ٹی یو ہے کی جگہ 4700 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سپلائی کرنے سے بجلی کے نرخ صارفین کی پہنچ سے دور ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس امتیازی سلوک سے صارفین پر 13 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جس کی صنعتیں اور عوام متحمل نہیں ہوسکتے۔ مہنگائی میں بھی مزید اضافے سے عوام شدید مسائل کا شکار ہوجائیں گے جبکہ صنعتی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ سلمان اسلم نے کہا کہ ایس ایس جی سی، وفاقی کابینہ کی منظور کردہ لوڈ مینجمنٹ پالیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کراچی کے لیے 100 ایم ایم بی ٹی یو کے بجائے صرف 13 ایم ایم بی ٹی یو فراہم کر رہا ہے جس سے خدشہ ہے کہ بجلی کے بلوں پر 12 روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بڑھ جائیں گے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ کراچی کی صنعتیں خاص طور پر ایس ایم ایز بجلی میں 25 سے 30 فیصد اضافہ برداشت نہیں کرسکتے۔ سلمان اسلم نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ایس ایس جی سی کو پابند کریں کہ کراچی کے صارفین کے لیے آر ایل این جی کی بجائے قدرتی گیس فراہم کرے تاکہ بجلی کی کم قیمت پیداوار سے معیشت کا پہیہ چلتا رہے، اور بجلی کے صارفین پر فیول سرچارج کا اضافی بوجھ نہ پڑے۔صدر کاٹی نے کے الیکٹرک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ کراچی کے صارفین کے لیے تیل اور آر ایل این جی پر انحصار کم کرکے سستی بجلی کی پیداوار کو یقینی بنائیں۔
ملک سے پہلے ہیبہت سی صنعتیں بھی دیگر ممالک کو منتقل ہو گئی ہیں جبکہ بے مثال مراعات کے باوجود کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔جب تک پاکستان میںاہم معاملات غیر متعلقہ افراد کے کنٹرول میں ہوں گے، قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی اور سیاسی عدالتی اور احتساب کے طریقہ کار کو آزادانہ طریقے سے کام نہیں کرنے دیا جائے گا ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔