مزید خبریں

جماعت اسلامی نے سود سے پاک بجٹ کیلیے قرار داد قومی اسمبلی میں جمع کرادی

اسلام آباد( اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے موجودہ ملکی صورتحال میں عوامی مطالبات پر مبنی قرارداد قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔قرارداد قومی اسمبلی میں قواعد وضوابط مجریہ 2007کے قاعدہ  (1)158کے تحت جمع کرائی گئی ہے۔قرارداد میں آئین پاکستان کی شق 38(1)کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مملکت،عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائل پیداوار  و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر اور ماجور اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس،ذات،مذہب یا نسل،عوام کے فلاح وبہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔اسی طرح ذیلی شق(ب)میں کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں کے لیے ملک میں دستیاب وسائل کے اندرمعقوم آرام وفرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔ اور اسی طرح ذیلی شق (ہ)میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسوقت پاکستان جن مالی مشکلات کا شکار ہے اس کی وجہ آئین پاکستان کے تقاضوں کو نظر انداز کیے جانا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خطرناک حد تک اضافہ کی وجہ سے اس سے منسلک روزمرہ استعمال کی 400سے زائداشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں عوام کے لیے اپنے بچوں کو پالنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے نہ صرف خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بلکہ متوسط طبقہ بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ عوام کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ملک پاکستان کا اس حالت کا سبب ریاستی سطح پر سود ی لین دین،بد انتظامی،اقربا پروری اور کرپشن ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک عوام ہی قربانی دے رہے ہیں جبکہ ریاستی ادارے عوام کے حقوق کی پاسداری اور تحفظ کے بجائے ایک خاص طبقہ زندگی کو تحفظ اور مراعات دینے میں مصروف ہیں۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عوام کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ اس ملک میں ہر شخص سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکسز کی وصولی کی جارہی ہے حتی کہ غریب بیوہ سے بھی ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے لیکن اس کے بدلے میں اس غریب کو کچھ نہیں دیا جارہا۔مزید کہا گیا ہے کہ عوام کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ اس ملک میں خود حکمرانوں کی غلط پالیسیوں،مراعات یافتہ طبقہ کی من مانیوں اور ریاستی اداروں میں عوام کے حقوق کے تحفظ اور ترقی کے حوالہ سے کارکردگی صفر ہے۔قرارداد میں مندرجہ ذیل عوامی مطالبات کو منظور کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے سفارش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ (۱) وفاقی حکومت ملک میں دستیاب وسائل،آمدن کے مطابق سود سے پاک بجٹ 2022.-23پیش کرے۔(۲)وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے اندرون وبیرون ملک ہر قسم کے سودی لین دین پر پابندی عائد کی جائے اور فیصلہ پر مکمل عملدرآمد کے حوالہ سے وفاقی حکومت فوری طور پر روڈ میپ کا اعلان کرے۔(۳)صدر،وزیر اعظم،اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر،وزرائے اعلی،وفاقی وصوبائی وزرا ،ارکان پارلیمنٹ،مشیروں،معاونین خصوصی، سول اور ملٹری بیوروکریسی کی سہولیات کے لیے مختص بجٹ میں 70 فیصد کمی کی جائے۔(۴)صدر،وزیر اعظم،اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر،وزرائے اعلی،وفاقی وصوبائی وزراء ،ارکان پارلیمنٹ،مشیروں،معاونین خصوصی،سول اور ملٹری بیوروکریسی کی سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول کو ختم،سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال پر پابندی،فری پٹرول،فری بجلی یونٹس،فری ایئر ٹکٹس کی فراہمی کو ختم،بیرون ملک انتہائی مجبوری اور محدود افرادکے علاوہ دوروں پر پابندی اور بیرون ملک علاج معالجہ پر پابندی عائدکی جائے اور اسی طرح ان پابندیوںکا اطلاق سابق صدور،وزراء اعظم سمیت تمام دیگر افراد پر بھی کیا جائے۔ (۵)یہ اعلان کیا جائے کہ قرض لینے والی حکومت اپنے دور حکومت میں اس قرض کی ادائیگی کے حوالہ سے جوابدہ ہوگی۔مراعات یافتہ طبقہ کے لیے ہر قسم کی سبسڈی کو واپس لیا جائے(۶)پورے ملک میں زکو?اور عشر اور صدقات کے نظام از سر نو مرتب کرکے نافذ کیا جائے۔