مزید خبریں

روزگار میں اضافے کیلیے سود ختم ،خود انحصاری ،زراعت اور صنعتوں کو فروغ دینا ہوگا

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)روزگار میں اضافے کے لیے سود ختم، خود انحصاری، زراعت اور صنعتوںکو فروغ دینا ہوگا‘ عوام انتخابات میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو مسترد کر دیں ‘ امن و امان کا قیام، معدنی وسائل کے استعمال، کیٹل، ڈیری، فش فارمنگ اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے ملکی ترقی ممکن ہے‘ پناہ گاہ اور لنگر خانوں کے بجائے گھریلو صنعتوں اور ٹریننگ سینٹرز پر سرمایہ کاری کی جائے۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی،نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی زون کے جنرل سیکرٹری محمد قاسم جمال، پاکستان ورکرز فیڈریشن کراچی کے چیئرمین اشفاق خانزادہ، ای پی ڈبلیو اے کے رہنما شفاعت حسین اور کراچی کی شہری بنت محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’روزگار میں اضافہ کیسے ہو؟‘‘شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ بے روزگاری ختم کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی بنیادی آئینی ذمے داری ہے لیکن بدقسمتی سے حکمران روزگار چھیننے کا باعث بن رہے ہیں‘ سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے 75 سال سے مسلط جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے اس ٹرائیکا کو مسترد کرکے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں جو بیروزگاری ختم کرنے کا عزم رکھتے ہوں اس کے لیے سودی نظام سے مکمل نجات، خود انحصاری کا حصول، صنعت و زراعت کا فروغ اور بنجر زمینوں کو آباد کرکے جاگیردارنہ نظام کو ختم کیا جائے‘ گزارہ یونٹ بنا کر بیروزگار افراد کے سپرد کیے جائیں‘ کیٹل فارمنگ، ڈیری فارمنگ اور فش فارمنگ کو فروغ دیا جائے‘ زیر زمین تیل، گیس اور دیگر معدنیات کو نکالنے کے لیے پالیسی بنائی جائے‘ برآمدات کا فروغ اور دریائوں کو گہرا کرکے جنگلات اور شجرکاری کی جائے جبکہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر کے بھی بیروزگاری کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ محمد قاسم جمال نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ صنعتی اور انڈسٹریل زونز قائم کرے‘ صنعت کاروں کو بجلی، پانی اور گیس کی سہولیات و دیگر ریلیف دے تاکہ انہیں کارخانے لگانے کی جانب راغب کیا جا سکے‘ سابق حکمران عمران خان نے صنعتی زونز اور کارخانے لگائے جانے کے بجائے پناہ گاہیں اور لنگر خانے قائم کیے جس نے ہمارے پورے کلچر کو تباہ و برباد کر دیا‘ اگر یہی پیسہ کارخانے اور اسمال انڈسٹریز قائم کرنے میں لگایا جاتا تو بڑی حد تک بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا اور روزگار کے نئے دروازے بھی کھل جاتے‘ حکومت بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے کے لیے نئے صنعتی زونز اور فنی ادارے بھی قائم کرے تا کہ نوجوان ہنر سیکھیں اور ہنر مند نوجوان معیشت اور بے روگاری کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اشفاق خانزادہ نے کہا کہ کسی بھی ملک میں روزگار کے لیے امن و امان سب سے پہلی ضرورت ہے‘ملک کے اندر امن قائم کر کے کاروباری سرگرمی بڑھ جائیں‘ کاروباری سرگرمیوں کے اضافے سے ہی روزگار کے مواقع بڑھائے جاسکتے ہو۔ شفاعت حسین نے کہا کہ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو ایک وسیع پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے‘ چھوٹے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کی جائیں جبکہ گھر یلو صنعتوں کی بھی اشد ضرورت ہے‘ اس سلسلے میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے‘ نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے لیے ٹریننگ سینٹرز قائم اور انہیں ایک محدود رقم بطور قرض دی جائے جو ہر قسم کے سود سے پاک ہو‘ ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو ان کے کام کا جائزہ ہر ماہ کی بنیاد پر لیاکرے‘ اگر صنعتیں چل گئیں تو بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور آئی ایم ایف سے جان بھی چھوٹ جائے گی اور ملک میں ترقی کا عمل شروع ہو گا۔ بنت محمود نے کہا کہ حکمران روزگار کے مواقع فراہم کریں‘ میٹرک کے بعد بچوں کے لیے فنی تعلیم عام کی جائے انہیں چھوٹے قرضے آسان شرائط پر دیے جائیں‘ چھوٹیگھریلو صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ گھر بیٹھی خواتین بھی گھر کے کام کاج کے بعد اپنی خدمات سر انجام دے سکیں۔