مزید خبریں

مہنگائی پر شہباز حکومت دباؤ کا شکار،اتحاد میں دراڑ کا خدشہ

اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اس کے علاوہ فیول ٹیرف میں اضافے اور مزید سخت اقدامات سے 11 جماعتوں کی اتحادی حکومت میں معاملات خراب ہونا شروع ہوگئے ہیںایک طرف شہباز شریف حکومت عوام کے بڑھتے دبائو کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے تو دوسری جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے عام انتخابات کے اعلان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ اگر کوئی بھی اتحادی جماعت الگ ہوئی تو ان کے اور حکومت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور حکومتی اتحاد کے اجلاسوں میں بی اے پی اور اے این پی سمیت متعدد اتحادی جماعتیں شریک نہیں ہورہیں پچھلے دنوں حکومتی اتحای جماعتوں کے اہم سربراہی اجلاسوں میں صرف چار جماعتیں مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی‘ایم کیوایم اور جمعیت علمائے اسلام(ف)شریک ہوتی رہی ہیں.کچھ سخت فیصلوں کے بعد بڑھتے دبائوکے تناظر میں حکمران اتحاد کے سربراہوں کے اجلاس میں اختلافات کی رپورٹس آئی ہیں جو وفاق میں ایک ووٹ پر قائم شہبازشریف حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہے.پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے حکمران اتحاد کے لیے دبائو سے نمٹنا مشکل ہوگیا ہے اس کے علاوہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھی پاکستان کا معاشی آئوٹ لک مثبت سے منفی کردیا ہے جس کے مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جب کہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور ان کی ٹیم ان غیرمقبول فیصلوں کے دفاع کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور گزشتہ حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 8 مارچ کے عدم اعتماد کے ووٹ کا مقصد کیا تھا؟جس کی وجہ سے حکمران اتحاد آج شدید خطرات کاشکار ہے اور حکومتی فیصلوں سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ 7 مارچ سے قبل نیچے گررہا تھا جبکہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت اتحادی جماعتوں کی مقبولیت زمیں بوس ہورہی ہے۔وزیر خزانہ جو کہ آئندہ ہفتے قومی بجٹ پیش کریں گے جوکہ موجودہ معاشی صورت حال میں یہ بہت مشکل ہوگا حکمران اتحاد کے لیے فی الوقت یہ مشکل ہورہا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کا دفاع کرے اور اس کے پاس اپوزیشن کے اس بیانیئے کا کوئی رد نہیں ہے کہ معاشی حالات مارچ سے قبل خاصے بہتر تھے۔ سیاسی اعتبار سے حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں سیاسی تنائومیں کمی نہیں لاسکی ہیں بلکہ وہ ایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے موجودہ تنائو میں مزید شدت آرہی ہے۔