مزید خبریں

نیب اور الیکشن ترمیمی بل منظوری کے بغیر واپس ، صدر مملکت کی نظرثانی کی ہدایت

اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022 نظر ثانی کے لیے واپس بھجوا دیا۔ بل آئین کے آرٹیکل 75 کی شق ایک بی کے تحت پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ کمیٹیوں میں نظر ثانی اور تفصیلی غور و خوض کے لیے وزیر اعظم کو واپس بھیجا گیا ہے۔ ہفتہ کو یہاں ایوان صدر سے جاری ایک اعلامیہ کے مطابق صدر مملکت نے قرار دیا کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل صدر مملکت کو اس بارے قانون سازی کی تجویز سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 46 کہتا ہے کہ وزیراعظم وفاقی حکومت کی جانب سے تمام قانون سازی کی تجاویز کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سامنے لانے سے قبل اس بارے صدر کو مطلع کرے گا۔صدر مملکت نے مزید کہا کہ ترامیم کو 26 مئی 2022 کو قومی اسمبلی اور 27 مئی 2022 کو سینیٹ نے جلد بازی میں اور مناسب تدبر کے بغیر منظور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے پر دور رس اثرات مرتب کرنے والی قانون سازی پر قانونی برادری اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے تفصیل سے بات کی جانی چاہیے تھی۔صدر نے کہا کہ نیب قوانین میں ترمیم سے بارِ ثبوت استغاثہ پر ڈال کر اسے 1898 ء کے فوجداری قوانین جیسا بنا دیا گیا ہے، نیب قانون میں ترامیم سے استغاثہ کے لیے کرپشن اور سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ثابت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے اور اس سے پاکستان میں احتساب کا عمل دفن ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ترمیم اسلامی فقہ کی روح کے بھی منافی ہے جہاں خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک عام شہری نے وضاحت کے لیے سوال کیا تھا۔اسی طرح یہ ترقی یافتہ ممالک کے مختلف احتسابی قوانین کے بھی منافی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس ترمیم سے غیر قانونی اثاثوں کے حصول کے لیے منی ٹریل کا سراغ لگانا تقریباً ناممکن ہو جائے گا خاص طور پر جب جائیداد/اثاثہ جات/دولت کے ریکارڈ کو نہ تو ڈیجیٹائز کیا گیا ہو اور نہ ہی تفتیش کاروں کے ذریعے خاص طور پر بے نامی جائیدادوں کا پتا لگایا جا سکے۔ صدر مملکت نے کہا کہ اگر مجوزہ ترامیم کو نافذ کیا گیا تو عدالتوں میں جاری میگا کرپشن کیسز بے نتیجہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا، مجوزہ ترمیم جس نے ملک میں گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے بدعنوانی اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے خاتمے کے لیے احتساب کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا چاہیے تھا اسے بے اختیار بنا دیا گیا ہے۔