مزید خبریں

وفاق و صوبائی حکومت کراچی میں ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی کی ذمے دار ہے

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) وفاقی و صوبائی حکومت کراچی میں ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی کی ذمے دار ہے‘کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے کم از کم 40 ہزار گاڑیوں کی ضرورت ہے جبکہ شہر میں محض6 ہزار سے بھی کم بسیں‘ منی بسیں اور کوچز سڑکوں پر ہیں‘ وفاقی و صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کی عدم توجہ اور غفلت کے باعث عوام کو سفری دشواریوں کا سامنا ہے‘ حکمرانوںکو اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت ملے تو وہ عوام کے مسائل کی طرف توجہ دیں‘ اخلاص کے بغیر کوئی نتیجہ خیز کام نہیں ہو پاتا‘ ٹرانسپورٹ کا نظام بلدیاتی حکومت کے حوالے کرکے کچھ نہ کچھ مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اسامہ رضی اور کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد حسین بخاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی کا ذمے دار کون ہے؟‘‘۔ اسامہ رضی نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور سہولیات کے فقدان کی ذمہ داری صرف اور صرف وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ پر عاید ہوتی ہے‘ 18ویں ترمیم کے بعد یہ ذمے داری بنیادی طور پرصوبائی حکومت کی ہے کہ وہ عوام کو ٹرانسپورٹ فراہم کرے‘ عوام حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں‘عوام کے لیے ریاست بنتی ہے تاکہ ریاست ان کی ضروریات زندگی کا انتظام کرے ‘ اور ریاست کا چہرہ حکومت ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ سابق اور موجودہ حکومت نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی تمام تر ذمہ داری سے اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھ لیا ہے اور بنیادی سہولتیں دینے کی بھی روادار نہیں ہے‘ حکومت کو چلانے والے ظلم کے اس نظام کے سرپرست ہیں اور اس کو قائم رکھنے کے لیے یہ عوام کا استحصال کررہے ہیں اور اپنی تجوریوں کو بھر رہے ہیں‘ حکمرانوں کے لیے کروڑوں روپے کی ایک نہیں درجنوں گاڑیاں درآمد کی جاتی ہیں اور عوام کو چنگ چی ، موٹر سائیکلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘ سڑکیں تک نہیں ہیںجو ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ اچھی گاڑیاں بھی چند دنوں میں خراب ہو جاتی ہیں‘ ملک ان حکمرانوں کی وجہ سے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ سید ارشاد حسین شاہ بخاری کا کہنا تھا کہ ہمارا زوال1985ء سے شروع ہوا جب سرسید کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی کا واقعہ ہوا۔ اس کے بعد نئی نئی ایم کیو ایم بنی اور اس نے خوب سیاست چمکائی‘ شہر کو لسانی فسادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘ نجی شعبے کے تحت چلنے والی ٹرانسپورٹ کو بڑی تعداد میں نذرآتش کیا گیا‘ ان کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ پنجابی ، پٹھان کہاں سے آگئے ہیں ‘خوب غصہ نکالا گیا‘ آئے دن جلسے، جلوس، ہڑتال کراچی کا مقدر بن گئے‘ اتنی مشکلات اور نفرت کے باوجود ہم چلتے رہے‘ انہوں نے پھر ہماری گاڑیاں پکڑنا شروع کردیں۔ جب کوئی جلسہ، جلوس ، ریلی ہو‘ انہوں نے سب سے پہلے ہماری گاڑیوں پر قبضہ کرنا ہوتا تھا‘ اس کے علاوہ پولیس کا قبضہ تو ان کی ڈیوٹی کا حصہ لگتا تھا‘ ان حالات میں ہم گزارا کرتے رہے‘ جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو2009ء تک ہمارے پاس 25 ہزار گاڑیاں روڈ پر چل رہی تھیں۔ یعنی 5 ہزار بسیں، 10ہزار منی بسیں ور 10ہزار کوچز شامل تھیں‘ 2008ء میں چنگ چی رکشہ متعارف کرادیا گیا‘ اس کی نہ رجسٹریشن تھی اور نہ ہی کوئی قانونی جواز‘ 2010 ء سے 2013ء تک ہمارے لیے مسائل اتنے بڑھے کہ لیاقت آباد کا علاقہ ہو یا کوئی اور شارع‘ ہمارا روڈ پر گاڑی لانا تباہی کا سبب ہی بنتا رہا‘ ہم چنگ چی کے خلاف عدالت عظمیٰ گئے ۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ان سے کچھ فیس وغیرہ لی جائے اور انہیں کچھ جگہوں تک محدود کردیا جائے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہے۔ بس اس طرح ان کو چھوٹ مل گئی‘ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور کرایوں میں اسی تناسب سے اضافہ نہ ہونے کے باعث آمدن اور اخراجات میں فرق ہوا جس نے نجی شعبے کے تحت چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘ سرکاری حکام کی جانب سے کرایوں میں اضافے سے متعلق تاخیری حربے استعمال کیے گئے ‘ جس سے ٹرانسپورٹرز اور عوام میں جھگڑوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی‘ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کردیتی تو زیادہ اچھا ہوتا‘ 1990ء میں 25 ہزار گاڑیاں سڑکوں پر تھیں اب محض6 ہزار سے بھی کم گاڑیاں رہ گئی ہیںجبکہ اس وقت شہر کو کم ازکم 40 ہزار مسافر گاڑیوں کی ضرورت ہے‘ گرین بسوں کا حکومت کی جانب سے اعلان ہوتا رہا۔ کچھ لائی بھی گئیں مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ کون اس نظام کو ٹھیک کرے گا؟ غرض ٹرانسپورٹرز کا کوئی ساتھ دینے کو تیار نہیں‘ اب گاڑیاں کباڑے میں چلی گئی ہیں‘ناصر شاہ حسین کے زمانے میں ہمیں بلایا گیا کہا گیا کہ6 ہزار گاڑیاں آرہی ہیں ہم آپ کو دیں گے۔ اس وقت ایک کروڑ یا90 لاکھ روپے قیمت تھی جو 5 سال میں قسطوں میں ٹرانسپورٹرز کو ملنی تھیں۔ پھر کرایے کا مسئلہ آگیا کہ ایک کروڑ روپے کی گاڑی لے کر کرایہ محض 10,15روپے رکھیں تو پھر کیسے کام چلے گا؟ اس طرح باتوں باتوں میں ہی ناصر حسین شاہ کا دور ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دوسرے وزیر آئے انہیں تجربہ نہیں تھا نوجوان تھے۔ انہوں نے ناصر حسین شاہ کی طرح نہ میٹنگ کی نہ ہی ہمیں بلایا ‘ 4 سال ہونے والے ہیں مسئلہ جوں کا توں ہے‘ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا‘ وفاق کی بات کریں تو جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو عمران اسماعیل نے مجھے بلایا کہ گرین لائن چلنی ہے‘ آپ اس میں کچھ حصہ ڈالیں۔ آپ کچھ کریں تو ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ انہوں نے 2,3 میٹنگز کیں مگر کوئی مزید پیش رفت نہ ہوسکی‘ وفاقی اور صوبائی حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے کراچی کا شہری بہت زیادہ پریشان ہے۔ عمران حکومت نے کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جس میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بھی حصہ رکھا گیا لیکن کچھ نہیں ہوا‘ اب عمران خان تو رخصت ہوگئے نئی اتحادی حکومت سے بھی کوئی توقع رکھنا عبث ہے اور خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔