مزید خبریں

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کمی تعلیم دشمنی پر مبنی ہے ، عثمان گجر

فیصل آباد(جسارت نیوز)زرعی یونیورسٹی اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم محمدعثمان گجرنے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئندہ بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کمی سے یونیورسٹیوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسے پورا کرنے کے لیے اضافی بوجھ فیسوں کی صورت میں طلبہ و طالبات پرپڑے گا،حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کمی کے فیصلے کوتعلیم دشمنی پرمبنی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز تعلیم و تحقیق میں پوشیدہ ہے، ترقی یافتہ قومیں کبھی بھی تعلیم پر سمجھوتا نہیں کرتیں اور تعلیم کے شعبے کو ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھتی ہیں،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حکمرانوں نے تعلیم دشمنی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ ترجیحات میں اسے سب سے آخر میں رکھا ہے،اسی لیے پاکستان دُنیا میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے، گزشتہ حکومتوں کے تسلسل کو برقراررکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے مالی سال 23 ۔2022ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ سالانہ بجٹ 65ارب روپے میں کمی کرکے30ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 141 جامعات کے لیے 104 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی ہوئی ہے،ہم حکومت کے اس فیصلے کی بھرپورمذمت کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ حکومت کا تعلیم دشمنی پر مبنی فیصلہ ہے،ناظم جامعہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں بھی یہی پریکٹس رہی ہے، اگرہم یونیورسٹیوں کی فیسوں کا جائزہ لیں تو وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہیں،جو غریب طالب علموں کی پہنچ سے دور ہے، غریب والدین مشکل سے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں،ایسے میں اب جب موجودہ سالانہ بجٹ پرنصف کٹ لگے گا، توغریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ غریب کے بچے تعلیم حاصل کریں یا نہ کریںکیونکہ اُن کے اپنے بچے تو ملک سے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں،اس لیے اُن کی ترجیح غریب عوام کے بچے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25(اے) کے مطابق ریاست ذمے دار ہے کہ 16برس تک کے بچوں اور بچیوں کے لیے مفت اور معیاری تعلیم کا بندوبست کرے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ درحقیقت حکومت مفت تعلیم کا بندوبست کرنے کے بجائے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں 50فی صدکمی کر کے نوجوان نسل کے لیے تعلیم و تحقیق کے دروازے بند کرنا چاہتی ہے،حکومت کے اس غلط اقدام پر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، پروفیسرز،اساتذہ کی تنظیمیں،اسلامی جمعیت طلبہ، اسلامی جمعیت طالبات اور والدین سراپا احتجاج ہیں۔اُنہوں نے مزید کہا کہ 2009 ء کی تعلیمی پالیسی میں تجویز کیا گیا تھا کہ مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 7فی صد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے لیکن عملاً ہم 3فی صد سے بھی نیچے ہیں۔ ہم عالمی سطح پر بہت ہی کمزور پوزیشن میں ہیں اور جنوبی ایشیا کے اس خطے میں بھی ہماری حیثیت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔اگر حکومت صحیح معنوں ملکی ترقی کے خواہاں ہیں تو ناگزیر ہے کہ شعبہ تعلیم کے لیے مجموعی ملکی پیدوار کا 7فی صد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے موقع پیدا کریں، یونیورسٹیوں کو دیوار سے لگانے کے سلسلے کو بند کیا جائے،اُن کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں اور بجٹ میں کمی کے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اُس میں خاطرخواہ اضافہ کیا جائے۔