کراچی (اسٹاف رپور ٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے اگلے بجٹ سال 2022-23 کے لیے نیپرا کی جانب سے جمعرات کو بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7.90 روپے فی یونٹ کے غیر قانونی اضافے کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام کاروباری لاگت میں اضافے کا باعث بننے کے وجہ سے صنعتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا اور مہنگائی کا ایک اور سیلاب امڈ آئے گا کیونکہ بجلی کے بلوں کو مہنگا اور صارفین کے لیے ناقابل برداشت بنانے کے ساتھ ساتھ بیس ٹیرف میں یہ بے تحاشہ اضافہ ہر گھر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے تمام گھریلو سامان کی قیمتوں کو بڑھا دے گا۔کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے ایک بیان میں نشاندہی کی کہ بیس ٹیرف میں اضافے کا فیصلہ واضح طور پر غیر قانونی ہے جو نیپرا کے قواعد و ضوابط کی برخلاف ہے کیونکہ ٹیرف میں کسی بھی اضافے کا تعین عوامی سماعت کے بعد ہی کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا اوربذات خود بیس ٹیرف بڑھانے کا فیصلہ کیا جو کہ ناقابل قبول ہے۔انھوں نے بتایا کہ 7.90 روپے فی یونٹ اضافے سے بنیادی ٹیرف 16.51 روپے فی یونٹ کے موجودہ بیس ٹیرف سے بڑھ کر 24.41 روپے فی یونٹ ہو جائے گا جو نہ صرف صنعتوں کی بقا کو داؤ پر لگائے گا بلکہ غریب عوام کی زندگیاں مزید اجیرن کردے گا جو مہنگائی کے موجودہ دور میں بجلی کے بلوں میں مزید اضافے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی منڈیوں میں ایندھن کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے ہر ماہ بجلی کے صارفین فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پہلے ہی 4 سے 6 روپے فی یونٹ اضافی رقم ادا کر رہے ہیں جبکہ بیس ٹیرف میں 7.90 روپے فی یونٹ اضافے سے تیار اشیاء بین الاقوامی منڈیوں میں غیر مسابقتی اور مقامی منڈیوں میں ناقابل برداشت ہو جائیں گی۔ معیشت اور کاروبار تب ہی پروان چڑھیں گے جب بجلی، گیس اور پانی کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کرکے کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کیا جائے گا۔محمد ادریس نے بعض اخبارات میں چھپنے والی آج کی اپیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اپیل کو بعض ٹریڈ ایسوسی ایشنز سے منسوب کیا گیا ہے لیکن اپیل کا مواد واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا مسودہ کے الیکٹرک کی سرپرستی میں تیار کیا گیا ہے جبکہ مذکورہ اپیل میں موجود مواد میں ہر چیز کا غلط حوالہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کو صرف آر ایل این جی میسر ہونے کا دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ آج تک 73 ایم ایم سی ایف ڈی گیس قدرتی وسائل سے آتی ہے جبکہ بقیہ آر ایل این جی ہے۔