مزید خبریں

پر امن احتجاج آئینی حق ہے لیکن ریاست کی اجازت ضروری ہے،لانگ مارچ کا تحریری فیصلہ

اسلام آباد(صباح نیوز+مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے لانگ مارچ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ پر امن احتجاج آئینی حق ہے، پرامن احتجاج کا آئینی حق ریاست کی اجازت سے مشروط ہے،پرامن احتجاج کے لیے اجازت دے دینی چاہیے۔14صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔ فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا 2صفحات کااختلافی نوٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ حقائق جاننے کے لیے واقعات کی تصدیق کی ضرورت ہے، عدالتی احکامات اور دی گئی یقین دہانی کو نظر انداز کرنے پر علیحدہ کارروائی کی ضرورت ہے۔فیصلے میں کہا گیاہے کہ عدالت کی نیک نیتی سے کی جانے والی کوشش کی بے توقیری دیکھ کر مایوسی ہوئی، عدالتی حکم نامہ فریقین کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنیکے لیے دیا گیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ صورتحال میں فریقین کی اخلاقی بلندی
میں کمی ہوئی ہے، توقع ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور حکومتی عہدیدارمنصفانہ ضابطہ اخلاق کی پاسداری کریں گی۔ علاوہ ازیں عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آزادانہ کارروائی کے لیے قابل اعتماد مواد کی ضروت ہے، تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا ہے، آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہوچکا، عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے، عدالت کا کہناتھا کہ لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراہوں کو کھول دیا گیا، احتجاج کے حق کو بغیر ٹھوس وجوہات کے نہیں روکنا چاہیے۔ عدالت نے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری وزارت داخلہ سے بھی ایک ہفتے میں سوالوں کے جواب طلب کرلیے۔سوالات میں پوچھا گیا کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی؟ کس وقت پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟ کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کوئی کررہا تھا؟ کیا حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ سوالات میں پوچھا گیا کہ ریڈ زون کی سیکورٹی کے انتظامات کیا تھے؟ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سیکورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟ کیا سیکورٹی بیریئر کو توڑا گیا؟ کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراونڈ میں گئے؟ عدالت نے زخمی، گرفتار اوراسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالتی حکم کی عدم عدولی ہوئی یا نہیں، کیا حکومت کو دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟عدالت نے کہا کہ یہ رپورٹس فاضل بینچ کے رکن ججز کے چیمبرز میں جمع کرائی جائیں ۔ عدالت نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد ہونے والے واقعات کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کے بعد جاری فیصلے کی حکم عدولی کی کارروائی کس کے خلاف کی جانی چاہیے۔ عدالت نے ابزرویشن دی ہے کہ یہ ممکن ہے کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو اس کی الگ سے کارروائی کی جاسکتی ہے ۔اٹارنی جنرل کی استدعا غلط طریقے سے اخذ کی گئی ہے ،اس لیے اٹارنی جنرل کی طرف سے دائر درخواست خارج کی جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہااور 25 مئی کے عدالتی احکامات کو نہیں مانا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ میں اس بات سے آمادہ نہیں عمران خان کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت کے پاس مواد موجود نہیں، میری رائے کے مطابق عمران خان نے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی۔انہوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ عدالت کے پاس عمران خان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کافی مواد موجود ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی سفارش کی اور لکھاکہ عمران خان سے پوچھا جائے کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے بیان کی وڈیوعدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چلائی گئی، عمران خان کے بیان میں کہاگیاکہ اسلام آباد اور راولپنڈی سے لوگ ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کریں، عمران خان نے بیان میں کہاکہ میں ان شاللہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں ڈی چوک پہنچ جاؤں گا۔انہوںنے اختلافی نوٹ میں مزید تحریر کیا کہ عمران خان کا یہ بیان اوربعد کاعمل 25 مئی کے عدالتی حکم سے ماورا تھا۔