مزید خبریں

اسٹیبلشمنٹ نے صحیح فیصلے نہیں لئے تو فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی،عمران خان

کراچی ( مانیٹر نگ ڈ یسک )سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ‘‘بول نیوز’’ کے پروگرام ’’تجزیہ وِد سمیع ابراہیم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس وقت صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ بھی تباہ ہوں گے ملک بھی تباہ ہوگا اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی، ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ پروگرام میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ لانگ مارچ والے دن جو کچھ ظالمانہ اقدامات اٹھائے گئے کیا آپ کو اس کی توقع تھی؟ عمران خان کا سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ میں توقع کر رہا تھا، لیکن جب 25 کی صبح ہم جب نکلے تو عدالت عظمیٰ کی ایک رولنگ آئی، جس میں کہا گیا کہ اب راستے بھی کلیئر کردو، اور جن لوگوں کو پکڑا ہوا ہے ان لوگوں کو بھی چھوڑ دو، جو ہمارا حق ہے پرامن احتجاج کا۔ جس کے بعد ہم پرسکون ہوگئے اور سمجھے کہ اب آرام سے نکل جائیں گے۔ لیکن مجھے سوچنا چاہیے کہ ہمارا مقابلہ مافیاز کے ساتھ ہے، یہ مجرم ہیں اس قوم کے، 30 سال سے اس ملک پر ظلم کر رہے ہیں، لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مافیا اسٹائل یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ لوگوں کو خرید کر اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں یا انہیں ختم کر دیتے ہیں، دہشت پھیلاتے ہیں اور جھوٹے کیسز کرتے ہیں، مار پیٹ کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے ڈر جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دن اور اس سے ایک دن پہلے جو مافیا اسٹائل آپریش ہوا جس میں یہ گھروں میں گھس گئے، عورتوں کو خوفزدہ کیا۔ یہ ایک میجر کے گھر چلے گئے جہاں اس کی ماں اور دس سال کی بیٹی تھی۔ کونسا ملک اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے جو انہوں نے اس رات کیں۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے دوران جب مجھے ساتھ آٹھ دن کے لیے جیل میں ڈالا گیا وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، یعنی ڈکٹیٹر شپ میں ایسی کوئی حرکت نہیں ہوئی جس ان لوگوں نے کی۔ عمران خان نے کہا کہ یہ لوگ ہیں مجرم، رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن میں دن دہاڑے ٹی وی کے سامنے لوگوں کو گولیاں ماریں، 14 قتل کئے، 70 سے 80 لوگوں کو گولیاں لگیں کوئی معذور ہوا تو کسی کی کمر میں گولی لگی۔ ساڑھے تین سال میں اپنے دور میں کوشش کرتا رہا، طاہرالقادری کے میسیجز آتے تھے، لیکن اس پر اسٹے آرڈر ملا ہوا تھا۔ ان کی سسٹم پر ایسی پکڑ ہے اور یہ ایسا مافیا ہے کہ یہ بچ جاتے ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ شہباز شریف کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ذوالقرنین نے ابھی بتایا کہ ان کا کیس ہی نہیں لگتا۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے اس کو سزا ہوجانی چاہئے تھی۔ کبھی کمر کا درد تو کبھی کچھ مہینوں تاخیر کی جاتی تھی۔ یہ مافیا ہے ان کی جڑیں نیچے تک پہنچی ہوئی ہیں، انہوں نے ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے عورتوں، بچوں اور بزرگوں پر ہاتھ ڈالا۔ سمیع ابراہیم نے سوال پوچھا کہ رات ایک پروگرام میں بار بار ایک سوال پوچھا گیا کہ آپ وزیراعظم تھے اور قومی اسمبلی کے باہر جیل کی گاڑی کھڑی ہوگئی آکر، کون تھا وہ جو یہ سارے احکامات جاری کر رہا تھا؟ آپ پوری کوشش کرتے رہے لیکن سزا نہیں ملی، رکاوٹ کون تھا؟ جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے اگر ہمیں پھر سے وہی حکومت ملتی تو میں کبھی قبول نہیں کرتا وہ ایک اتحادی حکومت تھی، جن لوگوں نے ہمیں جوائن کیا ہم انہیں جانتے نہیں تھے، ہم بڑے کمزور تھے۔ اگر مجھے حکومت ملتی پھر سے تو میں دوبارہ انتخابات کی طرف چلا جاتا ، کہتا کہ ری الیکشن کراؤ، اکثریت ہوگی تو آؤں گا ورنہ نہیں آؤں گا۔ ‘‘اس وقت ہمارے ہاتھ بندھ گئے، ہم ہر طرف سے پکڑے گئے، ہر جگہ سے بلیک میل ہوتے تھے، پاور پوری طرح ہمارے ساتھ نہیں تھی، اور جو پاور ہے سب کو پتا ہے کہ وہ کدھر ہے۔ تو ان لوگوں پر ہمیں انحصار کرنا پڑا اور ان لوگوں نے کئی اچھی چیزیں بھی کیں، لیکن جو چیزیں کرنی چاہیے تھیں وہ نہیں کیں۔’’انہوں نے کہا کہ جو ہم کرنا چاہتے تھے وہ ہم کر نہیں سکے، یعنی ذمہ داری میری ہے ملک کی لیکن میرے پاس اختیارات نہیں ہیں، تو ایسے سسٹم نہیں چلتا۔سمیع ابراہیم کا کہنا تھا کہ یہ چیلنج تو ابھی بھی آپ کے سامنے ہے کہ اگر آپ الیکشن میں اب اکثریت بھی لے لیتے ہیں تو جو لوگ بیٹھے ہیں وہ اپنی طاقت کو شئیر کرنے کو تیار نہیں؟عمران خان نے کہا کہ پاکستان کا چیلنج ایک طرف یہ ہے کہ ہمیں ایک طاقت ور فوج چاہئیے کیونکہ ہمیں دشمنوں سے خطرہ ہے، خطرہ پہلے بھی تھا لیکن جب سے ہم ایٹی قوت بنے ہیں خطرہ کچھ کم ہے۔ جس ملک کی فوج پروفیشنل اور طاقتور نہیں ہوتی تو دیکھ لیں کہ مسلمان دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے، آپ شروع کریں یمن، لیبیا، شام، صومالیہ افغانستان، لبنان، عراق، چن چن کر ایک ایک ملک کو نشانہ بنایا گیا۔ تو ہمارے لیے یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ ہماری فوج تگڑی ہے۔ اب دوسرا یہ کہ ایک طرف آپ کے پاس طاقت ور فوج بھی ہو اور مضبوط حکومت بھی تو یہ بیلنس ایک چیلنج ہے، حکومت تب مضبوط ہوگی جب اختیار اور ذمہ داری ایک ہی جگہ ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک آپ قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرتے، طاقت ور کو قانون کے نیچے نہیں لیکر آتے کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ آپ دنیا کے نقشے میں خوشحال ملک دیکھ لیں اور دیگر ممالک دیکھ لیں، خوشحال ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی، وہاں سارے قانون کی نیچے ہوں گے۔ نائجیریا تیل کے ذخیرے پر بیٹھا ہے، میرے پاس نائجیریا کے ڈیفنس منسٹر آئے میں نے پوچھا غربت کیوں ہے، کہنے لگے کرپشن ہے، میں کیا ختم کیوں نرتے؟ تو جواب ملاکہ سارے کرپٹ اوپر بیٹھے ہیں۔ سارے غریب ملکوں کا یہی مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب میری جو کوشش تھی قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی وہ یوں پوری نہیں ہوسکتی تھی کہ جو طاقت ور تھے ان کی جڑیں اتنی پھیلی ہوئی تھیں، ان کے اتنے کنیکشن تھے کہ اتحادی حکومت میں یہ آپ کر ہی نہیں سکتے۔ اگر آپ کی اکثریت نہیں تو تمام وقت آپ بلیک میل ہوتے رہیں گے۔پروگرام کے میزبان سمیع ابراہیم نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر آپ کے پاس اپنی اکثریت ہو تو وہ جو شخص نظر نہیں آرہا تو وہ آپ پر اس طرح وار نہیں کرسکتا جیسے اس بار ہوا اور امپورٹڈ حکومت مسلط کردی گئی؟چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں نے ساری دنیا دیکھی ہے، میں برطانیہ کا سسٹم بھی دیکھا ، کیونکہ میں وہاں یونیورسٹی بھی گیا اور کرکٹ بھی کھیلی تو میں اندر سے سارا سسٹم جانتا ہوں۔ ہم نے انہی کا سسٹم لیا ہوا ہے، ان کی کامیابی کیا ہے؟ ان کی سب سے بڑی کامیابی قانون کی حکمرانی ہے۔ ہمارے بنی کریم ؐ نے مدینہ میں سب سے پہلے قانون کی بالادستی قائم کی، انہوں نے کہا تھا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو اس کو سزا ملے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس وقت فیصلہ کن لمحے پر کھڑے ہیں، ہم اب بالکل تباہی کی طرف جا سکتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ مشرف نے سب سے بڑا ظلم کیا جب اس نے ان دو چوروں کو این آر او دیا، انہوں نے 11 سال جو کرپشن کی تھی وہ تمام کیسز آئے ہوئے تھے اور میچور ہو چکے تھے، سوئٹزرلینڈ میں پڑے 60 ملین ڈالرز پر انہیں پکڑے جانا تھا، وہ پیسہ پاکستان واپس آنا تھا۔ پاکستان کیس جیت چکا تھا، سرے محل کا کیس جیت چکا تھا، حدیبیہ پیپر مل کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، اسحاق ڈار نے باقاعدہ بینک اکاؤنٹس بتائے تھے کہ پیسہ کہاں باہر بھیجا جاتا تھا۔ مشرف نے این آر او دے کر دونوں کو معاف کردیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کا قرضہ 4 گنا بڑھ گیا۔ دس سالوں میں 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک قرضہ پہنچ گیا۔ اب یہ حکومت میں آکر سارے کیسز ختم کریں گے۔ سمیع ابراہیم نے سوال پوچھا کہ پاکستان میں حقیقت یہ ہے کہ اگر اکثریت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ نہ ہو تو آپ پاور میں نہیں آسکتے جیسا کہ بھٹو کے ساتھ ہوا، تو اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کی اگلی اسٹریٹجی کیا ہوگی؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس وقت صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ بھی تباہ ہوں گے ملک بھی تباہ ہوگا اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی، ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ یہ جب سے آئے ہیں روپیہ نیچے جا رہا ہے، چیزیں مہنگی ہورہی ہیں، اسٹاک مارکیٹ گر رہی ہے، ملک ڈیفالٹ ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان اگر بینک کرپٹ ہوتا ہے تو سب سے بڑا ادارہ جو کہ فوج ہے وہ پہلے ہٹ ہوگا، جب فوج متاثر ہوگی تو ہم سے کنسیشن وہ لی جائے گی جو یوکرین سے لی گئی، یعنی ڈی نیوکلارائزیشن، جب پاکستان نیوکلئیر پاور نہیں رہے گا تو میں آج کہتا ہوں کہ پاکستان کے تین حصے ہوں گے، ان کے پلان بنے ہوئے ہیں ملک توڑنے کے، ملک خودکشی کی طرف جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو صاف بتا رہا ہوں جو مجھے گیم پلان نظر آرہا ہے، اس میں بیرونی سازش بھی شامل ہے، کل میں ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا ، سی این این پر مفتاح اسماعیل آیا ہوا تھا، وہ کہتا ہے کہ امریکاجو ہمارا پائی باپ ہے وہ ہمیں روس سے سستا تیل خریدنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ یعنی اب یہ امریکا کی ہر قسم کی غلامی کریں گے، امریکا انڈیا اور اسرائیل ایک گٹھ جوڑ ہے، اور نواز شریف اور زرداری ہمیشہ ان کو خوش کرتے ہیں۔ بھارت میں خوشیاں منائی گئیں عمران خان کے جانے پر جیسے شہباز شریف کوئی ہندوستانی ہو جس نے عمران خان کی جگہ لی ہو۔

پشاور( آن لائن )تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد امپورٹڈ حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کروں گا، اس بار تیاری کرکے نگلیں گے۔ پشاور میں سوشل میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چور اور مجرم ملک میں آکر بیٹھ گئے ہیں ، طاقتور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے ، ملک کے لیے یہ فیصلہ
کن وقت ہے،ہم کامیاب نہ ہوئے تو یہ جنگ ہمارے بچوں کو لڑنی پڑے گی ، کوئی نیوٹرل نہیں ہو تا اور نہ ہی اللہ نیوٹر ل رہنے کی اجازت دیتا ہے، 25 مئی کو مشکل حالات میں میڈیا نے کوریج کی۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انصاف کی جنگ ہے ، چوروں کے خلاف ایک نہ ایک دن جنگ ضرور لڑنے پڑے گی، قوم کے لیے 2 راستے ہیں ایک تباہی اور دوسرا عظمت کا راستہ، اس جدوجہد کو سیاست نہیں جہاد سمجھیں۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ مارچ کے شرکا پر ایسے شیل پھنکے گئے جیسے دہشت گردوں پر پھینکے جاتے ہیں ، مجھے کسی چیز کا خو ف نہیں ، حق کے راستے پر نکلتے ہیں تو بات ذات سے آگے نکل جاتی ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ جوڈرتا ہے وہ کبھی بڑا آدمی نہیں بنا، وہ کبھی آگے نہیں بڑھتا ۔