مزید خبریں

گیس چور کہنے پر بر آمدکنندگان سے معافی مانگنے کا مطالبہ

کراچی (اسٹاف رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے اسلام آباد میں چیئرمین بزنس مین گروپ بی ایم جی زبیر موتی والا کی قیادت میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کی جس میں ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اور وفاقی بجٹ 2022-23کے لیے کے سی سی آئی کی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا۔ کے سی سی آئی وفد میں وائس چیئرمین بی ایم جی ہارون فاروقی، انجم نثار، جاوید بلوانی، جنرل سیکرٹری اے کیو خلیل اور صدر کے سی سی آئی محمد ادریس شامل تھے۔ وفد نے کراچی کی تاجر وصنعتکار برادری کو درپیش مجموعی چیلنجز پر روشنی ڈالی جو کہ ایک انتہائی مشکل معاشی ماحول میں مسلسل تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وفد نے چیئرمین سینیٹ کو کے سی سی آئی کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان اہم تجاویز کو آئندہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔انہوں نے خاص طور پر اس بات پر روشنی ڈالی کہ کراچی کی صنعتکار برادری ناقص انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ گیس، پانی اور بجلی کی شدید قلت کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس سے برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے قانون سازوں کو ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر جاری بحران مزید سنگین ہو جائیں گے جو ملک کو نو یٹرن پر لے جا سکتے ہیں۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کے سی سی آئی کی جانب سے کاروبار اور معاشی ماحول کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ حکومت کراچی کی تاجر برادری کو بھرپور تعاون فراہم کرے گی تاکہ ان کو درپیش مشکلات کو کم کیا جا سکے۔بعد ازاں کے سی سی آئی کے وفد محمد عبدالقادر کی صدارت میں ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو عاصم احمد کے ہمراہ دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی جبکہ سیکرٹری تجارت محمد صالح احمد فاروقی سے بھی الگ ملاقات کی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے گیس، پیٹرولیم کے اجلاس میں کے سی سی آئی کے وفد نے سینیٹرز کو کراچی کی صنعتوں کے ساتھ جاری ناانصافیوں سے آگاہ کیا اور خاص طور پر ایس ایس جی سی کے ریمارکس کی مذمت کی جس میں برآمد کنندگان کو چور قرار دیا گیا تھا۔ چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے مطالبہ کیا کہ ایس ایس جی سی ایسے شرمناک ریمارکس استعمال کرنے پر برآمدکنندگان سے معافی مانگے جس کی توثیق اجلاس میں موجود کئی سینیٹرز نے بھی کی۔چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا اور وائس چیئرمین بی ایم جی جاوید بلوانی نے مطالبہ کیا کہ گھریلو شعبے کو گیس کی فراہمی کو ترجیح دینے کے بجائے صنعتوں کو مناسب پریشر کے ساتھ گیس کی بلاتعطل فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے جبکہ گھریلو سیکٹر کو باؤزرز یا سلنڈر کے ذریعے گیس فراہم کی جائے یا کم از کم ان سے گیس کی پوری قیمت وصول کی جائے جیسا کہ دوسرے سیکٹر پر لاگو ہوتا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ دنیا میں کہاں رہائشی صارفین کو اولین ترجیح دی جاتی ہے؟ دنیا میں مقابلہ کرنے کے لیے قدرتی گیس کو معاشی لحاظ سے فراہم کیا جانا چاہیے۔سینیٹر عبدالقادر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ موجودہ معاشی بحرانوں اور بڑھتے تجارتی خسارے سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں فروغ دینا ہوگا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے متعلقہ قواعد پر بھی تبادلہ خیال کیا جو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو آکٹین ملاوٹ والے اجزاء کی مارکیٹنگ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن صرف ان مصنوعات کو ریگولیٹ کرتا ہے جو آر او این 92 سمیت عوام کی طرف سے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا تھا لیکن ایچ او بی سی 97 کو ریگولیٹ کرنا وزارت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔مصدق ملک نے کراچی کی صنعتوں کو درپیش گیس کے بحران کو اولین ترجیح پر حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔مزید برآں کے سی سی آئی کے وفد نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد، ایڈیشنل سیکرٹری کامرس احمد مجتبیٰ میمن، ممبر کسٹمز طارق ہدا، ممبر آئی آر پالیسی آفاق قریشی اور ممبر کسٹم پالیسی ثریا بٹ سے ملاقات کی جس میں کے سی سی آئی کے مالی سال 2022-23کے لیے بجٹ تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے کے سی سی آئی کی ایف بی آر کو ایس آر او 598 کے بارے میں فوری طور پر وضاحت جاری کرنے کی درخواست پر وزیر خزانہ کی موقع پر ہدایات کی تعریف کی جو یقینی طور پر بغیر کسی رکاوٹ کے خام مال کی ہموار درآمد کو یقینی بنائے گا۔ بعد ازاں کے سی سی آئی کے وفد نے سیکرٹری تجارت محمد صالح فاروقی سے ملاقات کے دوران کراچی ایکسپو سینٹر کی خستہ حالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ایکسپو سینٹر کے ایئر کنڈیشننگ سسٹم کو جلد از جلد ٹھیک کیا جائے۔ ایس آر او 598 کے اجراء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے اور متعدد مسائل کے حل کے لیے تجاویز دینے کے علاوہ انہوں نے کراچی میں نیوٹیک یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ ( ای ڈی ایف) سے فنڈز فراہم کرنے کی بھی درخواست کی۔