مزید خبریں

حکومت تیل کی قیمت تو خود مقرر نہیں کرسکتی معیشت کو سود سے کیا پاک کرے گی

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) حکومت تیل کی قیمت تو خود مقرر کر نہیں سکتی معیشت کو سود سے کیا پاک کرے گی‘ بڑے صنعت کار سودی نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ قومی سطح پر بینک سود سے پاک نظام بینکاری پر بڑی حد تک عملدرآمد کر رہے ہیں‘ مسئلہ ہے توصرف غیر ملکی قرضوں کا ہے‘ سودی معیشت نے قومی خود مختاری کی رمق بھی برقرار نہیں رہنے دی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان بزنس فورم کے صدر کاشف چودھری، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر نائب صدر سردار محمد احسان، مسلم لیگ (ج) کے ٹریڈرز ونگ کے صدر بابر جمال، فیڈریشن آف چیمبر آف پاکستان کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق جنرل ممبر طاہر آرائیں، مسلم لیگ (ض) پنجاب کے صدر میاں ساجد حسین انجم، بزنس مین اظہر شیخ اور تجزیہ کار معراج الحق صدیقی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا شریف حکومت معیشت کو سود سے پاک کرے گی؟‘‘ کاشف چودھری نے کہا کہ وفاقی شریعت عدالت ربا کیس میں ملکی معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے رہنمائی کرچکی ہے‘ اب ملک میں کسی بھی جماعت کی حکومت ہو‘ اگر وہ اس کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرے گی تو اسے توہین عدالت کیس کا سامنا کرنا پڑے گا‘ 30جون 1990ء کو وفاقی شریعت عدالت میں سودی نظام کے خاتمے سے متعلق دائر کردہ درخواست کی روشنی میں 1991ء میں ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں شریعت عدالت کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا اب 3 عشروں کے بعد فیصلہ آیا ہے جس میں سودی نظام کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ ایک فیصلہ پہلے بھی آیا تھا اس وقت حکومت کو جون2000ء تک اس پر عمل درآمدی کا حکم دیا تھا بعدازاں مشرف حکومت نے بھی اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کر دی تھی جس کی روشنی میں 24 جون 2002ء کو شریعت عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا گیا تھا اور ربا کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس شریعت عدالت بھجوادیا گیا تھا‘ اس وقت سے اب تک شریعت عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان اپنی مدت ملازمت پوری کر چکے ہیں۔ 2013ء میں یہ کارروائی دوبارہ شروع ہوئی اور فیصلہ میں حوالہ دیا گیا ہے کہ کیس میں اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کی رائے لی گئی ہے اور سب نے سود سے پاک بینکاری نظام کے حق میں رائے دی ہے‘ اب جسٹس سید محمد انور نے فیصلہ سنایا ہے کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شریعت اور قانونی ذمہ داری ہے اور ملک میں ربا (سود) کا خاتمہ بہر صورت کرنا ہوگا۔ سردار محمد احسان نے کہا کہ شہباز حکومت معیشت کو سود سے پاک کرنے کے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرے گی کیونکہ بڑے بڑے صنعت کار اس معاشی نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بابر جمال نے کہا کہ حکومت30 سال سے معیشت کو سود سے پاک نہیں کر سکی‘ اب بھی اس کی امید نہیں ہے‘ ہماری حکومتیں تو تیل کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے بھی آئی ایم ایف کی جانب دیکھتی ہیں‘ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بینکوں کی جانب سے قرض کی رقم سے زیادہ کی وصولی ’’ربا‘‘ کے زمرے میں آتی ہے اور اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے‘ فاضل عدالت نے یکم جون 2022ء سے سود لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیر شریعت قرار دیا اور ہدایت کی ہے کہ حکومت تمام قوانین میں سے ’’انٹرسٹ‘‘ کا لفظ فوری طور پر حذف کر ے‘ مزید یہ کہ اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے لیے5 سال کا وقت کافی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ طاہر آرائیں نے کہا کہ حکومت شریعت عدالت کے فیصلے پر عمل کرے گی یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے‘ عدالت عظمیٰ اور وفاقی شریعت عدالت میں طویل سیر حاصل سماعتوں کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں جب اصولی طور پریہ طے پا گیا ہے کہ ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاشی نظام اسلامی ہو گا تو اس معاملے کو اب مزید لٹکانے کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ فیصلے پر مکمل عمل درآمد کے لیے دی گئی مدت کے اندر اسلامی معاشی نظام کی تشکیل کے لیے بلا تاخیرکام شروع کیا جائے ‘ ملکی سطح پر گزشتہ 20 سال کے عرصے میں اس پر بہت سا کام بھی ہوا ہے‘ قومی بینک کچھ یا بڑی حد تک اسلامی نظام پر عملدرآمد کر بھی رہے ہیں یا ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ اگر کوئی مسئلہ دکھائی دیتا ہے تو وہ غیر ملکی قرضوں کا ہے‘ حکومت کو جلد ہی اس معاملے پر پیش رفت کرنا ہوگی‘ وفاقی شریعت عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ ساجد حسین انجم نے کہا کہ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اسٹیٹ بینک کا قانون بھی سود سے پاک بینکاری کے نظام کی اجازت دیتا ہے‘ اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی‘ نظام شریعت میں سود کے قطعی حرام ہونے کے بارے میں2رائے نہیں ہو سکتیں کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں سود کی ممانعت فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ اگر تم سود لینا اور دینا ترک نہیں کرتے تو تم اللہ اور اس کے رسولؐ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائو‘‘۔ بے شک ذاتِ باری تعالیٰ نے سود کو انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح بخاری شریف‘ مسلم شریف‘ ترمذی‘ ابودائود‘ نسائی میں شامل متعدد احادیث مبارکہ میں بھی سود سمیت 7 بڑے گناہوں کو چھوڑنے کی تلقین کی گئی ہے جو فرمانِ نبویؐکے مطابق انسانوں کو ہلاک کرنے والے گناہ ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’سود کھانے سے توبہ نہ کرنے والے جہنم میں جائیں گے‘‘۔ ہمارے آئین کی دفعہ 2 اور 2۔الف کے تحت اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دے کر یہ طے کردیا گیا ہے کہ اسلام کے تقاضوں کے منافی کوئی قانون وضع نہیں ہو سکتا مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لیکر اب تک اسلامیان پاکستان سودی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے جس کے لیے جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں بینکوں کا کاروبار سودی نظام پر چل رہا ہے جس سے ہم الگ تھلگ نہیں رہ سکتے ‘مقامِ تاسف ہے کہ جب سود کو ذاتِ باری تعالیٰ نے خدا اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ کھلی جنگ سے تعبیر کیا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کو قائم رکھنے کے لیے کوئی جواز کیونکر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اظہر شیخ نے کہا کہ وفاقی شریعت عدالت نے سودی معاشی نظام مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے حکومت کو 5 سال کا وقت دیا ہے تو عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں اب کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ معراج الحق صدیقی نے کہا کہ شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سودی نظام سے خلاصی حاصل کرلی جائے‘ حکومت کو اس سلسلے میں فوری پیش رفت کرتے ہوئے اصلاحاتی اقدامات کرنے چاہئیں‘گزشتہ 75 سال سے جاری اس گھن چکر نے ملک کی معیشت کی بنیادیں بھی مضبوط نہیں ہونے دیں اور قومی آزادی و خودمختاری کی رمق بھی برقرار نہیں رہنے دی‘ اگر ہم قائد و اقبال کی امنگوں کے مطابق سیاسی استحکام نصیب ہو جاتا تو ملکی معیشت بھی مستحکم ہو جاتی اور ہمیں عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک نہ مانگنا پڑتی جبکہہماری سیاست و معیشت میں موجود مفاد پرست طبقات نے ہماری معیشت و معاشرت کی لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے‘ گزشتہ 2،3 ماہ سے حکمران اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی جانب سے جس طرح اس وطن عزیز کو جنگل کے معاشرے کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ملک میں خانہ جنگی کا ماحول بنایا جارہا ہے‘ اس کی بنیاد پر تو مستقبل میں بھی قومی معیشت کے استحکام کا تصور ناپید رہے گا۔